چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل پیش
ایک طرف ملکی خزانہ خالی ہو رہا ہے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگیاں مشکل ہو رہی ہیں۔ عوام مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ دوسری طرف ان لوگوں پر نوازشات کی بارش ہو رہی ہے جو پہلے سے ہی آسودہ حال ہیں۔ اب بھلا بتلائیں تو سہی کہ ہماری قومی اسمبلی کے سپیکر یا سینیٹ کے چیئرمین کی تنخواہوں میں اور مراعات میں اضافہ کی کیا ضرورت آن پڑی ہے۔ ان کے کون سے بچے بھوکے رو رہے ہیں۔ گھروں میں فاقے ہیں، پہننے کو کپڑا نہیں اور گھر کا کرایہ ادا کرنے تعلیم کی فیس دینے یا پانی بجلی گیس کے بل جمع کرانے کی سکت نہیں ہے۔ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کے گھر واقعی عالی شان ہیں جنہیں ہم دور جدید بنگلے کہہ سکتے ہیں۔ ان کے بچے بہترین اعلیٰ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں۔ بہترین کاروبار کرتے ہیں ، اعلیٰ ملازمت انہیں ملتی ہے۔ روپے پیسے کی انہیں ٹینشن نہیں۔ کھلا کھاتے اور پیتے ہیں، کبھی ملک میں کبھی بیرون ملک سیر سپاٹا کرتے ہیں ، جہاں ان کے چھوٹے موٹے فلیٹ بھی ہوتے ہیں یا بزنس پارٹنر بھی ہوتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ ان سمیت تمام ممبران قومی و صوبائی اسمبلی و سینٹ ، اعلیٰ سرکاری افسران کی تنخواہوں میں کٹ لگائی جائے ، ان کی مراعاتوں کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ جب وہ بجلی ، گیس ، پانی اور پیٹرول کے بل خود دیں گے، اعلیٰ شان سرکاری گھروں کا مناسب کرایہ دیں گے تو خودبخود ان کی عقل ٹھکانے آ جائے گی اور وہ جان سکیں گے کہ غریب لوگ کس طرح تنگ حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب تک حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات کم نہیں ہوں گے ان کی عیاشیاں ختم نہیں ہوں گی ، ملک کے غریبوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اس لیے سینیٹ اور قومی اسمبلی سے یہ بل پاس ہی کیوں نہ ہو اس پر عمل نہ کیا جائے۔ حکومت خود ہی خدا خوفی کا مظاہرہ کرے اور امرا کی بجائے غربا کو رعایتیں دے۔
٭٭٭٭٭
لاہور ہائی کورٹ کا کم عمر ی میں شادیاں کرنے والے دولہا، نکاح رجسٹرار اور گواہوں کیخلاف کارروائی کا حکم
اس حکم پر واقعی عمل شروع ہو جائے تو مزہ آ جائے گا۔ تھانوں میں کم عمر دولہے روتے منہ بسورتے رہائی کے لیے دہائیاں دیتے ہوئے شادی سے ہی توبہ کا اعلان کرتے نظر آئیں گے۔ اس کے ساتھ ہی شادی کے گواہ اور نکاح رجسٹرار بھی حوالات کی کھولی میں پڑے رہائی کی تدبیریں ڈھونڈ رہے ہوں گے۔ ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم خود قانون شکنی کرتے ہیں۔ قانون کے خلاف چلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تو اب قانون کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا راستہ خود بنائے اور جو بھی اس کی راہ میں مزاحم ہو اسے اپنی طاقت کا مزہ چکھائے۔ کم عمری میں بچوں کی شادی بذات خود مسائل کا باعث بنتی ہے جو کھیلنے کی عمر ہو یا پڑھنے لکھنے کی اس میں کسی نابالغ بچے یا بچی پر گھریلو ذمہ داریاں ڈالنا زیادتی ہے ظلم ہے۔ ایسے بے جوڑ اور غلط رشتوں کی وجہ سے بعدازاں خاندانی اختلافات بھی معاشرتی زندگی میں زہر گھولتے ہیں اور یہ شادیاں مسائل کا شکار رہتی ہیں۔
اب لاہور ہائی کورٹ نے اس بارے میں زبردست حکم جاری کیا ہے اور قوانین کی خلاف ورزی پر مقدمات درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی اگر عدالتی ریمارکس کے مطابق ان شادیوں میں چاول کھانے والے باراتیوں کیخلاف بھی سخت کارروائی شروع ہو جائے تو مزہ دوبالا ہو جائے گا۔ یہ لوگ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کہ خلاف قانون کام ہو رہا ہے۔ اطمینان سے نکاح کے چوہارے کھانے کے بعد مرغ و نان یا بریانی پر یوں ٹوٹ پڑتے ہیں گویا یہ زندگی کا آخری کھانا ہے اس کے بعد کھانا نہیں ملے گا۔ ایک آدھ جگہ بارتی بھی اگر حوالات کی سیر کرنے پہنچ جائیں تو آئندہ باراتی بھی نکاح رجسٹرار اور گواہوں کی طرح پہلے دولہا اور دلہن کی عمر کی تصدیق کے بعد شادی میں شرکت کا فیصلہ کریں گے۔
٭٭٭٭٭
کراچی میں تحریک انصاف کے 24 یو سی چیئرمینوں کی بغاوت، جماعت اسلامی کو ووٹ نہ دینے کا فیصلہ
حفیظ جالندھری نے بہت پہلے ایسے واقعات کی بڑی خوبصورت منظر کشی کی تھی ان کے علاوہ بھی شعرا نے اس حوالے سے اچھے شعر کہے ہیں۔ حفیظ جالندھری نے کہا تھا :
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
ابھی کل تک جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی والے کراچی میں ایک دوسرے کے حلیف بنے ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ’’چھوڑیں گے نہ ہم تیرا ساتھ او ساتھی مرتے دم تک‘‘ کہتے پھرتے تھے۔ پھر اچانک صحن چمن میں جب بادصبا کی جگہ بادصرصر نے لے لی تو پھر بقول ثاقب لکھنوی۔
آگ دی جب باغباں نے آشیانے کو میرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے
والی حالت سامنے آنے لگی۔ یہ پل بھر میں کیا ماجرا ہو گیا۔ اس کا جواب جماعت اسلامی والے بھی جانتے ہیں اور خود پی ٹی آئی والے بھی۔ ویسے بھی یہ اتفاق و اتحاد صرف اپنے اپنے مفادات کے تابع تھا۔ ورنہ دونوں کے نظریات اور سیاست میں زمین و آسمان کے فرق ہیں۔ بہرحال ہماری سیاست کا حسن کہہ لیں قباحت کہہ لیں یہی ہے ہم نظریات سے ہٹ کر ہمیشہ مفادات کی سیاست کرتے ہیں اور بعد میں روتے پیٹتے کفارہ ادا کرتے ہیں۔ اب پی ٹی آئی کی مدد کے بنا جماعت اسلامی والوں کے لیے کراچی کی میئر شپ حاصل کرنا ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی کے بلدیاتی ممبران کی اکثریت نے جماعت اسلامی کی حمایت سے انکار کر دیا ہے جس پر انہیں جماعت اسلامی کے امیدوارحافظ نعیم نے خبردار بھی کیا ہے کہ اس طرح وہ نااہل ہو سکتے ہیں ان کی سیٹ چھینی جا سکتی ہے۔ خود پی ٹی آئی کراچی کے صدر نے بھی انہیں ایسا کرنے پر برے انجام سے دوچار ہونے کی بات کی ہے۔ مگر یہاں دوچار نہیں درجنوں بلدیاتی ممبران اور یو سی چیئرمین بغاوت کر چکے ہیں ان سے نمٹنا شاید جماعت اسلامی یا پی ٹی آئی والوں کے لیے آسان نہ ہو گا۔
٭٭٭٭٭
ملک بھر میں صفر لوڈشیڈنگ کے لیے کوشاں ہیں۔ وفاقی وزیر توانائی
موسم گرما اگرچہ تاخیر سے شروع ہوا ہے مگر اس کے آتے ہی ایک بار پھر عوام لوڈشیڈنگ کے چنگل میں پھنس گئے ہیں۔ اب خدا جانے وزیر تواائی خرم دستگیر کس منہ سے صفر لوڈشیڈنگ کی بات کر رہے ہیں۔ یہ تو سراسر ہاسہ نکالنے والی بات ہے۔ ابھی تو آغاز ہے انجام خدا جانے کیا ہو گا۔ کئی روز سے جس طرح وقفے وقفے سے بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے وہ اس اعلان شدہ اوقات کار اور ہر ہفتے 6 گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ کے علاوہ ہے۔ بجلی کی یہ آنیاں جانیاں تب کیا غضب ڈھائیں گی جب جلد ہی مون سون کا سیزن ہو گا۔ حبس کا موسم ہو گا اس موسم میں عوام کا کیا ہو گا۔ لوڈشیڈنگ کو صفر پر پہنچانے کے دعویٰ کرنے والوں کی مہربانیوں سے لگتا ہے لوڈشیڈنگ پھر صفر سے شروع ہو رہی ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو گا۔ یہ آج کی بات نہیں ایک مسلسل عذاب ہے جو برسوں سے لوگوں پر مسلط ہے جو ایمانداری سے بل جمع کراتے ہیں پھر بھی بجلی سے محرومی ان کے مقدر میں لکھی ہوتی ہے۔ آج تک کوئی اس مسئلے کے حل نہیں نکال سکا۔ سب بجلی کے مہنگے منصوبے لا کر اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں اور عوام کو موسم کی سختیاں جھیلنے کے لیے بے یارو مددگار چھوڑتے ہیں۔ اس مسئلہ کا جو آسان حل ہے اس کی طرف کوئی نہیں جاتا کہ ملک میں ڈیم بنا کر ہوا اور سورج کی توانائی سے بھی بجلی حاصل کرنے کے منصوبے بنائے جائیں ان سب سے بڑھ کر پانی اور بجلی کی بچت کے سب سے بڑے اور اہم منصوبے کالا باغ ڈیم کو نواز شریف، آصف زرداری، ولی خان یا جی ایم سید ڈیم کا نام دے کر جلد از جلد مکمل کر کے بجلی کی لوڈشیڈنگ اور پانی کی قلت سے نجات پائی جائے۔
٭٭٭٭٭
بدھ ‘ 24 ذیقعد‘ 1444ھ14 جون 2023ء
Jun 14, 2023