شرح سود برقرار، حکومتی امیدیں روسی خام تیل سے وابستہ

ملک کے بڑے اور اہم معاشی مسائل قابلِ قیاس مستقبل میں تو حل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے البتہ روسی خام تیل کی پاکستان آمد سے معیشت پر پڑنے والا دبائو کسی حد تک کم ضرور ہو جائے گا جس سے حکومت عوام کو ریلیف دینے کے قابل بھی ہو جائے گی اور آئندہ عام انتخابات کے لیے اسے ایک ایسا نکتہ بھی ہاتھ لگ جائے گا جس کو بنیاد بنا کر جلسوں میں عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جائے گی لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ روسی خام تیل کی مدد سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہو بھی جائیں تو دیگر اشیائے ضروریہ کے نرخ اپنی جگہ برقرار ہیں جس کی وجہ سے عوامی مسائل میں واضح کمی ہوتی نظر نہیں آرہی۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر کو ہی دیکھ لیا جائے تو صورتحال واضح ہو جاتی ہے۔ سوموار کو انٹر بینک اور اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر مستحکم تو رہی لیکن اس وقت ڈالر انٹر بینک میں287.63روپے اور اوپن مارکیٹ میں 303روپے کا ہے جس سے صاف پتا چلتا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود دیگر اشیاء کے نرخ کیوں کم نہیں ہو رہے۔
ادھر، سٹیٹ بینک نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق شرح سود کو 21 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مرکزی بینک کے اعلامیے میں یہ تو کہا گیا ہے کہ جون سے مہنگائی کم ہونا شروع ہو جائے گی لیکن اس بات پر عام آدمی تب تک یقین نہیں کرسکتا جب تک اسے بازار سے ملنے والی اشیاء کی قیمتیں واقعی کم نہ ہوں۔ سٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ جاری کھاتوں کا توازن مارچ اپریل میں مثبت رہا جس کے باعث زرمبادلہ پر دباوکم ہوا ہے۔ آئندہ مالی سال کا  بجٹ معمولی سکڑاوکی نشاندہی کر رہا ہے۔ عالمی بازار میں اجناس کی قیمتوں میں کمی کا رجحان برقرار رہے گا۔ مہنگائی کی توقعات کو وسط مدتی اہداف تک لانے کے لیے سود کی موجودہ شرح درست ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اپریل اور مئی 2023ء میں مہنگائی توقعات کے مطابق اپنے عروج پر رہی۔ مئی کی 38 فیصد مہنگائی کی شرح بلند ترین تھی۔ گزشتہ مہینوں میں تو مرکزی بینک کی توقعات پوری ہوئیں لیکن رواں ماہ میں اس کی توقع کے مطابق مہنگائی میں کمی ہوتی ہے یا نہیں، اس کے لیے عوام کو صبر کا دامن تھام کر صورتحال کا جائزہ لیتے رہنا ہوگا۔
سٹیٹ بینک کے اعلامیے میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ معاشی صورتحال کا مستقبل مقامی بے یقینی اور بیرونی کمزوریاں حل کرنے سے مشروط ہے۔ یہ بات حالیہ ہفتوں کے دوران کئی بار مختلف قومی و بین الاقوامی ادارے اور شخصیات کہہ چکی ہیں کہ جب تک سیاسی عدم استحکام پر قابو نہیں پایا جاتا تب تک یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ ملک میں پھیلی ہوئی بے یقینی کا کوئی حل نکالا جاسکے، اور یہ بے یقینی ملکی اور عوامی مسائل میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ یہ وہ درد ہے جس کی دوا ہماری سیاسی قیادت کے پاس ہے لیکن وہ چارہ گری سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں اور وجہ اس کی وہی ذاتی مفادات اور انائیں ہیں جنھیں کوئی بھی قربان کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس صورتحال میں سب سے کڑا امتحان سیاسی قیادتوں ہی کا ہے کہ وہ کس طرح ملک کو ان سنگین مسائل سے بچانے کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیتی ہیں اور خاص طور پر اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ملکی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کے لیے اپنی انائیں قربان کرتی ہیں یا نہیں۔
آج کل تو حکومت کی توجہ سیاسی عدم استحکام سے زیادہ روسی خام تیل پر ہے جس کی پہلی کھیپ 183 میٹر لمبے روسی جہاز پیور پوائنٹ کے ذریعے کراچی کے ساحل پر پہنچ چکی ہے۔ 45 ہزار میٹرک ٹن تیل سے لدا یہ جہاز ہمارے معاشی مسائل پر کسی حد تک قابو پانے کے لیے یقینا بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن سارے مسائل اس سے حل نہیں ہوسکتے۔ بہرحال، جہاز سے خام تیل نکال کر ریفائنری میں پہنچانے کا کام شروع کردیا گیا ہے اور وزارت پٹرولیم کے حکام کا کہنا ہے کہ یکم جولائی سے پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں پر فرق پڑے گا۔ روسی تیل عام مارکیٹ سے 30 سے 40 فیصد سستا ہے اور یہ قیمت کا واقعی بہت بڑا فرق ہے تاہم وزارت پٹرولیم کے مطابق روسی تیل کے صاف ہونے کے بعد اوسط قیمت نکالی جائے گی اور پھر مقامی اور روسی تیل کے نرخوں کو ملا کر اوسط قیمت نکلے گی۔ اس بات سے ایسا لگتا ہے کہ عوام کو روسی تیل کی آمد سے فائدہ تو ضرور ہوگا لیکن یہ اتنا نہیں ہوگا جتنی توقعات اس سے وابستہ کرلی گئی ہیں۔ ویسے بھی وزیر مملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک کہہ رہے ہیں کہ قیمتوں میں بڑا فرق تب آئے گا جب ہم اپنی ضرورت کا ایک تہائی خام تیل روس سے لینا شروع ہو جائیں گے۔
اسی سلسلے میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے روس سے رعایتی قیمت پر خام تیل پاکستان لانے کا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اسے کہتے ہیں وعدوں کی تکمیل، ملک اور قوم کے مسائل حل کرنے کی اہلیت، نیت اور عوام کی سچی خدمت۔  سماجی رابطے کے ذریعے ٹوئٹر پر جاری مریم اونگزیب کا بیان دل خوش کن تو ہے لیکن اس میں عوام کے لیے خوشی کا پہلو کم اور حکومت کے لیے زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ حکومت روسی خام تیل پاکستان لانے پر خوشی کے شادیانے ضرور بجائے لیکن اس بات پر بھی توجہ دے کہ سیاسی عدم استحکام پر کیسے قابو پایا جائے اور عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ ریلیف کیسے دیا جائے۔ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ عام انتخابات سر پر کھڑے ہیں اور مہنگائی کی چکی میں پسے عوام کو اگر فوری طور پر ریلیف نہ دیا گیا تو اس کا نتیجہ حوصلہ شکن انتخابی نتائج کی صورت میں بھی برآمد ہوسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...