ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی جیل میں 86سال کی قید کاٹ رہی ہیں۔ وہ 20سال سے قید تنہائی میں ہیں۔ ابھی انھیں اپنی سزا کے 66سال اور گزارنے ہیں۔ وہ ماہر علم الاعصاب ہیں، یعنی انھیں اعصابی سائنسدان بھی کہا جا سکتا ہے۔ 2003ء میں امریکی سی آئی اے نے ڈاکٹر عافیہ کو اغواء کر کے غیر قانونی طور پر جبراً اپنی قید میں رکھا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ نے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد کے ہمراہ ٹیکساس کی امریکی جیل میں قریباً20سال بعد ان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی جو تفصیلات سامنے آئیں وہ بڑی کربناک ہیں۔ بہن فوزیہ نے بتایا کہ ملاقات کے لیے ایک گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا لیکن اس مقررہ وقت میں بھی وہ عافیہ کو گلے سے نہیں لگا سکیں۔ دونوں کے بیچ شیشے کی ایک موٹی دیوار حائل تھی تاہم دونوں کے مابین گفتگو کا ڈیجیٹل سسٹم موجود تھا۔ سی آئی اے کے ارکان اس گفتگو کو ریکارڈ بھی کر رہے تھے۔
دوران ملاقات ڈاکٹر عافیہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے۔ قید و بند کی طویل صعوبتیں برداشت کر کے وہ بہت نحیف و نزار ہو چکی ہیں۔ انھیں ایک کان سے سنائی نہیں دیتا۔ سر میں چوٹ کے باعث ان کی قوت سماعت سخت متاثر ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو قید میں ڈال کر بھی امریکی سی آئی اے کے انتقام کی آگ ابھی تک ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ ڈاکٹر عافیہ کو مختلف حیلے بہانوں سے ہر روز اعصابی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بے رحم لوگوں کو اتنا بھی رحم نہیں آتا کہ وہ ایک لاچار و مجبور اسیرِ جیل پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ جو جینڈر کے حوالے سے بھی ایک بے ضرر خاتون ہے۔ امریکا نے ڈاکٹر عافیہ کے متعلق جو خودساختہ کہانی گھڑی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔ امریکیوں نے عافیہ صدیقی پر الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے کابل میں امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کے لیے بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی۔
کہا یہ بھی جاتا ہے کہ پرویز مشرف نے اپنے دورِ اقتدار میں امریکی ایماء پر ڈاکٹر عافیہ کو کروڑوں ڈالر کے عوض امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کیا۔ پاکستان میں آنے والی نئی حکومتوں نے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے بہت کوششیں کیں۔ اگست 2009ء میں یوسف رضا گیلانی نے بحیثیت وزیراعظم پاکستان عافیہ کی رہائی کے لیے دو ملین ڈالرز کے عوض تین امریکی وکیلوں کا بھی انتخاب کیا لیکن لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کو یہ رقم جاری کرنے سے منع کر دیا۔ عدالتِ عالیہ نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ رقم خردبرد کر لی جائے گی۔ دسمبر 2009ء میں کراچی پولیس نے بالآخر عافیہ صدیقی اور ان کے بچوں کے اغواء کا ایک مقدمہ بھی نامعلوم فراد کے خلاف درج کیا لیکن اس مقدمے کا کچھ نہیں بنا اور مقامی تفتیشی افسر کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ ویسے تو عافیہ صدیقی کا کراچی سے غزنی تک کا سفر اب بھی پراسرار اور پوشیدہ ہے لیکن یہ بات واضح ہے کہ وہ ایک غلط پتے پر پاکستانی شدت پسند شخص کی تلاش میں تھیں۔ مصدقہ ذرائع سے ملنے والی اس اطلاع کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر عافیہ نے گرفتاری سے قبل افغانستان کے صوبے وردگ کے ضلع نرخ میں ایک امام مسجد کے مکان میں اپنے چھوٹے بیٹے کے ہمراہ تین روز تک قیام کیا۔
ڈاکٹر عافیہ امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع جیل میں 86سال کی سزا کاٹ رہی ہیں۔ وہ جیل کے اندر ایک کمرے میں قید ہیں۔ کسی دوسری قیدی خاتون کو اُن کے ساتھ یا اُن کے کمرے میں نہیں رکھا گیا۔ بہن فوزیہ جب اپنی بہن عافیہ کو ملیں تو وہ جیل کے خاکی لباس میں تھیں۔ انھوں نے جو سکارف پہن رکھا تھا وہ بھی خاکی رنگ کا تھا۔ فرش پر گرنے سے ان کے اوپر والے دو دانت بھی ٹوٹے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر عافیہ نے ملاقات کے دوران اپنے بچوں اور والدہ کا پوچھا۔ ان کی خیریت دریافت کی لیکن فوزیہ چھپا گئیں کہ والدہ کا تو انتقال ہو چکا ہے۔ نواز شریف اور عمران خان سمیت ہر حکومت نے دعویٰ کیا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے عالمی سطح پر سفارتی کوشش کریں گے لیکن کوئی بھی سنجیدگی سے ڈاکٹر عافیہ کے معاملے کو حل نہیں کر سکا۔ امریکی عدالت میں استغاثہ نے ڈاکٹر عافیہ کے خلاف جو کیس پیش کیا اس میں الزام کی نوعیت محض اتنی سی ہے کہ عافیہ نے امریکی فوجیوں کو مارنے کے لیے بندوق اٹھائی لیکن اس ’وقوعہ‘ کا کوئی گواہ یا شواہد موجود نہیں ہیں۔ بغیر گواہ اور شواہد کی عدم دستیابی کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کو سزا دینا بین الاقوامی قوانین ہی نہیں، انسانی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ نے بچوں اور گھر والوں کے بغیر اپنی جوانی ٹیکساس کی جیل میں گزار دی۔ امریکا انھیں کس جر م کی سزا دے رہا ہے۔ وہ کس جرم کی پاداش میں جیل میں ہیں۔ امریکا سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہے۔ شاید ہماری حکومت یہ کام نہ کر سکے۔ ہمیں میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کو جگانا ہو گا اور آواز بلند کرنی ہو گی کہ اب بے چاری عافیہ پر مزید جبر نہ کرو۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں کہاں سوئی ہوئی ہیں، انھیں بھی جگانا ہو گا۔ ایسا نہ کرسکے تو وہ دن دور نہیں جب عافیہ کا تابوت زمین بوس ہونے کے لیے پاکستان میں اترے گا اور ہم عافیہ کو انصاف لیے بغیر مٹی میں اترتا دیکھیں گے۔
٭…٭…٭