ٹی ٹی پی اور سیاسی عدم استحکام

تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) طویل عرصے سے پاکستان میں شریعت کے نفاذ کے لیے جہاد کر رہی ہے- امریکہ اور نیٹو فورسز کے افغانستان سے انخلا کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان امن معاہدہ ہو جائے گا- عمران خان کا ہمیشہ طالبان کے لیے نرم گوشہ رہا ہے لہذا ان کے دور حکومت میں طالبان کے ساتھ عارضی امن معاہدہ طے پاگیا اور جنگ بندی کا اعلان ہو گیا-
 ایک رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے 24 ہزار افراد کو شمالی وزیرستان میں آنے کی اجازت دے دی گئی- افغان طالبان نے پاکستان کو یقین دلایا کہ کسی شدت پسند تنظیم کو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی- افغان حکومت اپنے اس وعدے پر عملدرآمد نہ کر سکی- اس کی توجہ داعش پر مرکوز رہی جو افغان طالبان کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے-
 ایک رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے 6 ہزار جنگجو افغانستان کے علاقوں ننگر ہار، کنار، لوگر، پاکیتکا اور خوست میں موجود ہیں- تحریک طالبان پاکستان سے منسلک ہزاروں شدت پسند شمالی وزیرستان کے مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں- ایک اور رپورٹ کے مطابق 2022ء میں ٹی ٹی پی نے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی 367 کاروائیاں کیں جو تشویشناک اور غیر معمولی ہیں- پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک بیان میں افغان حکومت کو انتباہ کیا کہ اگر اس نے پاکستان کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں کو کنٹرول نہ کیا تو پاکستان افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کا حق رکھتا ہے- افغانستان کے وزیر داخلہ نے رانا ثنائ￿ اللہ کے اس بیان کو اشتعال انگیز قرار دیا- ٹی ٹی پی کے ترجمان نے پی پی پی اور مسلم لیگ نون کے لیڈروں کو ٹارگٹ کرنے کی دھمکی دی-
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کے بارے میں ایک تازہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی حکومت تحریک طالبان پاکستان کو کنٹرول کرنے کے قابل نہیں ہے-کابل کے طالبان حکمرانوں اور قندھار کی طالبان کی قیادت کے درمیان کشیدگی اور تناؤ پایا جاتا ہے- کابل کے حکمران معروضی حالات کے مطابق آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور عالمی تعلقات کو مزید کشیدہ نہیں کرنا چاہتے- جب کہ قندھار میں طالبان کے امیر ہیبت اللہ خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں اور قدامت پسند سوچ پر قائم ہیں-
 افغانستان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے طالبان کے امیر کا نام لیے بغیر ان پر تنقید کی جس کے بعد قندھار میں طالبان کے امیر کی سکیورٹی پر مامور سرکاری افراد کو تبدیل کر دیا گیا-امریکہ نے پاکستان کے اندر روز بروز بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے-افغانستان عالمی پابندیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہے البتہ اس کا ٹیکس سسٹم کامیابی سے چل رہا ہے - فروری 2023ء میں افراط زر کی شرح 3.5 تک آ گئی تھی- افغانستان کا ریونیو 193.9 بلین افغانی ہے- افغانستان میں حشیش کی آمدنی 150 ملین ڈالر سالانہ ہے-پاکستان کے عوام کے لئے یہ امر انتہائی دکھ اور اذیت کا باعث ہے کہ افغانستان کی سرحد پر آئے دن پاک فوج کے کے نوجوان شہید ہو رہے ہیں-ٹی ٹی پی کے دہشت گرد جس تسلسل سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں وہ پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہیں-
 پاکستان کی معاشی صورتحال انتہائی دگرگوں ہے- سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان کو سلامتی کے سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں مگر بڑے دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ کو ان خطرات کا کوئی احساس نہیں ہے- دہشت گرد پاکستان کے سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہیں-پولیس تحریک انصاف کے سیاسی کارکنوں کو جس انداز سے جبر و تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے اور چادر اور چاردیواری کے تقدس کو جس طریقے سے پامال کیا جا رہا ہے وہ قابل مذمت ہے- انسانی حقوق کی پامالی کی وجہ سے تحریک انصاف کے کارکنوں کے اندر نفرت اور غصے کے جذبات بڑھتے جا رہے ہیں-پاکستان کے محب الوطن تجزیہ نگاروں کے مطابق تحریک انصاف کے مایوس اور ناراض کارکن ٹی ٹی پی کے سہولت کار بن سکتے ہیں- ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کو قیام و طعام کی سہولیات اور مالی تعاون فراہم ہو سکتا ہے- موجودہ سنگین حالات میں قومی سلامتی کے اداروں کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ پاکستان کے اندر سیاسی اور معاشی استحکام کے لیے ٹھوس اور نظر آنے والے عملی اقدامات اٹھائیں تاکہ ملک کا سیاسی ٹمپریچر نیچے آسکے -
بھارت پاکستان کو اندر سے توڑنے کے لیے لانگ ٹرم پالیسی پر گامزن ہے- پاکستان کے اندر سیاسی عدم استحکام بھارت کے عزائم کیلیے بہت سازگار ہے -قومی سلامتی کا تقاضا یہ ہے کہ فوری طور پر عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے تاکہ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے کارکن اور حامی غصے اور مایوسی سے باہر نکل سکیں اور ان کے دلوں میں یہ امید پیدا ہو سکے کہ وہ ووٹ کی طاقت کے ذریعے ایک بار پھر اقتدار میں آ سکتے ہیں- افواج پاکستان کو اپنی پوری توجہ دفاع پر رکھنی چاہیے کیونکہ دفاع کی صورتحال روز بروز پیچیدہ ہوتی جارہی ہے- 
دنیا کی کوئی فوج عوام کے تعاون کے بغیر ملک کا دفاع نہیں کر سکتی - افواج پاکستان اگر عملی طور پر سیاست سے علیحدہ ہو جائیں تو عوام کی نظروں میں ان کے وقار میں اضافہ ہو سکتا ہے- سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے سلامتی کے چیلنجوں میں خطرناک اضافہ ہوتا جا رہا ہے- ان حالات میں کسی مہم جوئی کی گنجائش نہیں ہے- سب پاکستان پر رحم کرتے ہوئے اپنی آئینی حدود کے اندر آ جائیں اور قومی مفادات کو ذاتی و گروہی مفادات پر ترجیح دیں-
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...