بجٹ میں اہم شعبوں کے اہداف

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کئی پشتوں سے پاکستانیوں کی تقریباً دو نسلوں کے لیے بجٹ تیار کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔حالیہ وفاقی بجٹ میں انھوں نے زندگی کے ہرشعبے کی اہمیت کے پیش نظر حقیقت پسندانہ رقوم مختص کی ہیں۔ زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے،یہی وجہ ہے کہ مشکل ترین معاشی حالات میں بھی موجودہ بجٹ میں زرعی قرضوں کی حد کو رواں مالی سال میں 1800 ارب سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کر دیا گیا ہے اور اگلے مالی سال میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لیے 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ معیاری بیج ہی اچھی فصل کی بنیاد ہیں، اس لیے ملک میں معیاری بیجوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لیے ان کی درآمد پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ختم کی جا رہی ہیں۔بلاشبہ زرعی صنعت دیہی معیشت میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بجٹ میں ایگروانڈسٹری کو قرض کی فراہمی کے لیے 5 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔چھوٹے اور درمیانے درجے کے آسان قرضوں کو جاری رکھا جائے گا، اس مقصد کے لیے اگلے مالی سال میں 10 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔درآمدی یوریا کھاد پر سبسڈی کے لیے اگلے سال کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔پیداواری صلاحیت میں اضافہ کے لیے چھوٹے کسانوں کو کم مارک اپ پر صوبائی حکومتوں کی شراکت سے قرضہ جات فراہم کیے جائیں گے۔ اس مد میں 10 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔
آئی ٹی انڈسٹری اکیسویں صدی میں معیشت کاسب سے تیزی سے ترقی کرنے والا شعبہ ہے اور ان کا برآمدات میں نمایاں حصہ ہے، پاکستان اپنا کاروبار کرنے والے فری لانسرز کے شعبے میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔آئی ٹی برآمدات کو بڑھانے کے لیے انکم ٹیکس 0.25 فیصد کی رعایتی شرح لاگو ہے، یہ سہولت 30 جون 2026ء تک جاری رکھی جائے گی۔ کاروباری ماحول میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے 24 ہزار ڈالر تک سالانہ کی برآمدات پر فری لانسرز کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن اور گوشواروں سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے لیے ایک سادہ سنگل پیج انکم ٹیکس ریٹرن کا اجراء کیا جا رہا ہے۔آئی ٹی اور اس سے منسلک سروسز پروائیڈرز اپنی برآمدات کے ایک فیصد کے برابر مالیت کے سافٹ ویئر زاورہارڈ ویئرزبغیر کسی ٹیکس کے درآمد کر سکیں گے۔ ان درآمدات کی حد 50 ہزار ڈالر سالانہ مقرر کی گئی ہے۔نیزآئی ٹی شعبہ کو چھوٹے و درمیان درجے کے کاروبار کا درجہ دیا جا رہا ہے ۔اگلے مالی سال میں 50 ہزار آئی ٹی گرایجویٹ کوپروفیشنل ٹریننگ دی جائے گی۔
صنعتی بالخصوص برآمدی صنعت ملک کی معیشت کا اہم حصہ ہے۔ وزیراعظم پاکستان شہبازشریف کی سربراہی میں ایکسپورٹ کونسل آف پاکستان کا قیام انقلابی پیشرفت ہے۔ یہ کونسل ہر سہ ماہی میں کم سے کم ایک میٹنگ منعقد کرے گی اور برآمدات سے متعلق فیصلے کرے گی۔ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے مقامی طور پر تیار نہ ہونے والے خام مال پر 5فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔ترسیلاتِ زرزرمبادلہ کا اہم ترین ذریعہ ہیں، ترسیلات زر ہماری برآمدات کے 90 فیصد کے برابر ہیں۔ اس ضمن میں ایک نئے ’ڈائمنڈ کارڈ‘ کا اجراء کیا جا رہا ہے جو کہ سالانہ 50ہزار ڈالر سے زائدرقم بھیجنے والوں کو جاری کیا جائے گا۔ڈائمنڈ کارڈ ہولڈرزکوبہت سی دیگر مراعات کے علاوہ قرعہ اندازی کے ذریعے بڑے انعامات دینے کے لیے اسکیم کا اجراء کیا جائے گا۔
تعلیم کی اہمیت پر کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی۔ ہائرایجوکیشن کمیشن کے لیے اخراجات جاریہ میں 65ارب اورترقیاتی اخراجات کی مد میں 70ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں مالی معاونت کے ضمن میں پاکستان انڈومنٹ فنڈ کے لیے بجٹ میں5ارب روپے رکھے جا رہے ہیں۔ یہ فنڈ میرٹ کی بنیاد پر ہائی سکول اور کالج کے طلبہ و طالبات کو وظائف فراہم کرے گا۔بلاشبہ ایک جمہوری اورفلاحی عوام دوست حکومت کاہدف ہوتا ہے کہ کسی ہونہار طالبعلم کو وسائل میں کمی کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ ہونا پڑے۔ رواں مالی سال میں وفاقی حکومت نے ایک لاکھ لیپ ٹاپ کی ذہین اور مستحق طلبہ و طالبات میں تقسیم کی اسکیم کو جاری رکھنے کے لیے آئندہ مالی سال میں 10ارب روپے کی رقم مختص کی ہے۔ کھیل تعلیم کا ایک لازمی حصہ ہے، بجٹ میں سکول، کالج اور پروفیشنل کھیلوں میں ترقی کے لیے 5ارب روپے رکھے گئے ہیں۔بجٹ میں خواتین کو روزگار کی فراہمی کے لیے 5ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس میںچھوٹے فنی پیشہ ورانہ کاروبار کے لیے سستے قرضے اور کاروبار چلانے کے لیے تربیت جیسے منصوبے چلائے جائیں گے۔ کاروباری خواتین کے لیے ٹیکس کی شرح میں بھی چھوٹ دی گئی ہے ،جو انتہائی خوش آئندامر ہے ۔
ہمارے ملک میں نوجوان طبقہ بیروزگاری اورمہنگائی سے شدید متاثر ہے اورحکومت وقت کی خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں کیونکہ نوجوان ہی وطن عزیز کے روشن مستقبل کے ضامن ہیں۔ وہ قومی ترقی اور خوشحالی میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ نوجوانوںکی طرف سے شروع کیے جانے والے کاروبار سے ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح میں 50فیصد تک کمی کی جائے۔ اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے رعایتی ریٹ پر قرضہ جات کی فراہمی کے لیے 10ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نوجوانوں کو خصوصی پیشہ ورانہ ٹریننگ دینے کے لیے 5ارب روپے مختص کیے ہیں۔ 92 ہزارطالب علموں کو بے نظیر انڈر گریجویٹ سکالر شپ دیا جائے گا جس کے لیے 6 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے لیے 35 ارب روپے سے مستحق افراد کے لیے آٹے چاول چینی دالوں اور گھی پر ٹارگٹڈسبسڈی دی جائے گی۔مستحق افراد کے علاج کے لیے پاکستان بیت المال کو 4 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔ اس وقت پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے،یہ امرخوش آئندہے کہ حکومت پاکستانی کوئلے کے استعمال اور سولرانرجی کو فروغ دینے کے لیے عزم پختہ رکھتی ہے اوربجٹ میں کوئلے سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ مقامی کوئلہ استعمال کریں جبکہ سولر پینل، انورٹر،سولربیٹری کوملک کے اندر تیاری کے لیے اس میں استعمال ہونے والے خام مال کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنیٰ دیا جارہا ہے۔
بلاشبہ ترقیاتی بجٹ ملکی تعمیر و ترقی میںاہم کردار ادا کرتا ہے۔اگلے مالی سال کے لیے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1,150 ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ صوبوں کے ترقیاتی پروگرام کا حجم 1,559 ارب روپے ہے۔ اس طرح قومی سطح پر ترقیاتی پروگرام کا حجم 2,709 ارب روپے ہو گا۔ بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم کی بہتری کے لیے موجودہ بجٹ میں107 ارب روپے کی رقم مہیا کی گئی ہے۔ ملک میں بجلی کی پیداواری صلاحیت 41 ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں پن بجلی کا حصہ 25 فیصد ہے۔کوئلے سے چلنے والے جامشورو پاور پلانٹ (1200 میگاواٹ) کی تکمیل کے لیے اگلے مالی سال میں 12 ارب روپے کی رقم مہیا کی جائے گی۔ پاکستان اور تاجکستان کے درمیان 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔پچھلے سال مہمند ڈیم کی تکمیل کے لیے 12 ارب روپے فراہم کیے گئے۔ اگلے مالی سال میں بھی اس منصوبے کے لیے 10 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جا رہی ہے۔ اسی طرح 2160 میگاواٹ استعداد کے داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے ترجیحی بنیادوں پر تقریباً 59 ارب روپے کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔ دیامیر بھاشا ڈیم کے لیے 20 ارب روپے فراہم کیے جائیں گے۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...