عظیم گل نرگس خاں تھانہ رمنا اسلام آباد میں درج ایف آئی آر کے حوالے سے بننے والی جے آئی ٹی میں پیش ہوئے۔ ان سے پوچھا گیا آپ نے جنرل فیصل کے خلاف جو الزامات لگائے ہیں، ان کا کوئی ثبوت آپ کے پاس ہے۔ عظیم گل نرگس خاں نے صفائی سے صاف جواب دیا کہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پھر پوچھا گیا، آپ نے الزام کیوں لگایا؟۔ فرمایا مجھے ’’کسی‘‘ نے کہا تھا۔
لگتا ہے، جے آئی ٹی کی ذمہ داریاں بڑھ گئیں۔ اب اسے اس ’’کسی‘‘ کو ڈھونڈنا ہو گا۔ یہ ’’کسی‘‘ کوئی آدمی ہے، چھلاوا ہے اور ایسا زورآور کہ گریٹ خان اس کے کسی مشورے کو رد نہیں کرتا۔ اسی ’’کسی ‘‘ نے کہا تھا، اسمبلیاں توڑ دو، خان نے توڑ دیں، پھر پچھتائے، اسی ’’کسی‘‘ نے کہا تھا، تنصیبات پر حملوں کا کریش پروگرام پیشگی بنا ڈالو۔ اس ’’کسی‘‘ کی کہانی بہت لمبی ہے، 2014ء سے شروع ہوتی ہے۔ جب خان نے ایک تواتر بلا تعطل کے ساتھ یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ نواز شریف 200۔ ارب یا شاید 300۔ ارب چوری کر کے لے گیا ہے۔ کسی محفل میں ایک جاں نثار نے پوچھا کہ آپ کو اتنا بڑا راز کہاں سے ملا، فرمایا، مجھے فواد چودھری نے بتایا ہے۔ فواد چودھری کو یہ بات کس نے بتائی ؟۔ ظاہر ہے، اسی ’’کسی‘‘ نے۔
جے آئی ٹی کو چاہیے کہ وہ بلاتاخیر جہانگیر ترین سے رابطہ کرے، کہ وہ فواد چودھری س اسی ’’کسی‘‘ کے بارے میں پوچھیں کہ وہ کون ہے۔ یہ ’’کسی‘‘ دریافت ہو گیا تو یقین مانئے ، بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے۔
گریٹ گل نرگس خاں کے مسئلے البتہ حل ہوتے نظر نہیں آتے۔ ’’وہ کسی‘‘ نے انہیں حل کی منزل سے بہت دور پہنچا دیا ہے جہاں سے واپسی کے راستے بھی اسی ’’کسی‘‘ نے بڑے بڑے تودے گرا کر بند کر دئیے ہیں۔
____
ہو سکتا ہے، کسی دن گریٹ گل نرگس خاں یہ بھی بتا دیں کہ امریکی سائفر کی کہانی گھڑنے کا مشورہ بھی انہیں ’’کسی‘‘ نے دیا تھا۔ اور پھر اسی سائفر کہانی کے بطن سے ’’ہم کوئی غلام تو نہیں‘‘ کے نعرے نے جنم لیا تھا۔ اس ’’کسی‘‘ نے سائفر گھڑنے کا مشورہ دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ بعدازاں اس کے جال سے نکلنا کیسے ہے۔ چنانچہ پھر خان صاحب کو کتنے پاپڑ بیلنے پڑے امریکہ کو یہ یقین دلانے میں کہ ’’ہم ترے غلام ہی تو ہیں‘‘۔ بات ابھی تک بنی نہیں اور نوبت بایں جا رسید کہ حقیقی آزادی کی تحریک اب حقیقی معافی کی تحریک میں بدل گئی ہے۔ اب کے خط آنے لگا تو خط پہ خط آنے لگا کی تصویر بن گئی۔
____
گریٹ گل نرگس خاں کے وہ وڈیو کلپ، اعلانات اور پریس کانفرنسیں زیادہ پرانی نہیں ہوئیں، بلکہ کل ہی کی بات لگتی ہے کہ حق میں وہ بڑی تمکنت سے فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ’’ان‘‘ کے ’’نمبر‘‘ ہی بلاک کر دئیے ہیں، ان سے رابطے کاٹ دئیے ہیں۔ وہ اپنے متاثرین کو یہ تاثر دیا کرتے تھے کہ ’’وہ‘‘ اب ان سے معافی کے طلب گار ہیں، تلافی کرنا چاہتے ہیں، مجھے پھر سے لانا چاہتے ہیں لیکن میں بھی ڈٹ گیا ہوں، اب ان کی کوئی بات نہیں سنوں گا۔
اب وہ دو تین روز سے تسلسل کے ساتھ یہ نوحہ پڑھ رہے ہیں کہ میں تو ’’ان‘‘ سے بات کرنا چاہتا ہوں، بار بار انہیں پیغام بھیج رہا ہوں لیکن وہ مجھ سے بات کرنا ہی نہیں چاہتے، میں کیا کروں، اکیلا رہ گیا ہوں، کوئی میری بات ہی نہیں سنتا۔
____
گریٹ گل نرگس خاں کے اس نئے روپ سے ان بے شمار مداحوں کو کس قدر جھٹکا لگا ہو گا جو خان کو انسان نہیں ، دیوتا سمجھتے تھے۔ دیوتا جو کسی کے سامنے نہیں جھکتا، دیوتا جس کے سامنے سبھی جھکتے ہیں، دیوتا جو کسی سے بھیک نہیں مانگتا۔ دیوتا جن سے سبھی مانگتے ہیں۔ یہ مداحین پجاری بن گئے تھے، ہر روز آرتی اتارتے اور اس کے بھجن گاتے تھے۔ بعض پجاری تو دیوتا کو اور بھی اوپر لے گئے تھے، ان کے عقائد یہاں نقل کر دیں تو بلاسفیمی کا کیس بن جائے۔
انہی پجاریوں کے سامنے دیوتا اب گڑگڑا رہا ہے، اپنی تنہائی کا نوحہ پڑھ رہا ہے۔ ان پچاریوں سے کوئی تو انٹرویو کرے بھائی، ان سے پوچھے کہ حال دل اب کس منزل میں ہے
حال دل کا کیا ہے نہ پوچھو صنم
آپ کا ’’گڑ گڑانا‘‘ غضب ڈھا گیا
____
گریٹ خان کی پارٹی کو بہت سے لوگ چھوڑ گئے، بہت سے دوسرے چھوڑتے جا رہے ہیں، مزید بہت سے دوسرے جلد چھوڑ جائیں گے لیکن ایک ہستی ایسی ہے جو پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ کا مرقع بنی ہوئی ہے اور کسی صورت دیوتا کا دامن چھوڑنے پر تیار نہیں۔
جی، اپنے شاہ محمود قریشی کا ذکر ہو رہا ہے جنہوں نے دیوتا سے دو ملاقاتیں کیں اور انہیں دونوں بار ایک ہی قیمتی مشورہ دیا۔
کیسا مشورہ؟ اب کیا بتائیں
توری الڑیا پر لاگی نجریا
والا معاملہ ہے۔ الڑیا سے مراد وہ بالا خانہ یا چوبارہ نہیں جہاں انوریا کو آنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ موری الڑیا پہ آئو سنوریا، دیکھا دیکھی بلم ہوئی جائے رے بلکہ یہ الڑیا دراصل پارٹی قیادت کا استعارہ ہے۔ یعنی جہاں کلاوہ قیادت رکھی ہے، کلاہ سے مراد سر پر پہنی جانے والی چیز ہے یعنی جیسے کہ بالی وغیرہ
قریشی صاحب یہی بالٹی ہتھیانے کے چکّر میں ہیں۔ مہاراج شیو جی اپنی زلفوں سے گنگا بہانے کے بعد کیلاش پہاڑ کی چوٹیوں میں روپوش ہو گئے، تب سے اب تک روپوش ہیں۔ قریشی صاحب بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ دیوتا مہاراج، آپ نے جتنی گنگا بہانی تھی، بہا لی، اب گپھا میں تشریف لے جائیے، پوجا مندر کی مہنتائی مجھے سونپئے، وعدہ کرتا ہوں ، مندر کا دیا بجھنے نہیں دوں گا، اس کا گھنٹہ بجتا ہی رہے گا۔ دیوتا جی ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔
____
سٹیٹ بنک نے ناقابل یقین خوشخبری دی ہے کہ جون کے بعد یعنی اگلے مہینے سے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہو جائے گی۔ خوشخبری کے ساتھ شرط بھی ہے یعنی اگر نادیدہ حالات پیش نہ آگئے تو…
نادیدہ حالات یعنی کوئی نادیدہ ور پھر سے نہ آ گیا تو…؟۔ 2014 ء میں مہنگائی کم ہونا شروع ہوئی، 2018ء تک حالات بہت بہتر ہو گئے تھے پھر ایک نادیدہ ور آ گھسا جس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
کسی اور ’’نادیدہ ور‘‘ کا اندیشہ
Jun 14, 2023