سینٹ: زرعی شعبے ، ریٹیل سیکٹر اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس لگایا جائے، اپوزیشن متوازن بجٹ، حکومت

Jun 14, 2023

اسلام آباد (خبر نگار) سینٹ اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے مطالبہ کیا ہے کہ زرعی شعبے، ریٹیل سیکٹر اور رئیل اسٹیٹ پر ٹیکس عائد کیا جائے۔ جبکہ حکومتی ارکان نے موجودہ بجٹ کو متوازن بجٹ قرار دیدیا۔ چیئرمین محمد صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینٹ اجلاس میں بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر جام مہتاب نے کہا کہ ہماری تقاریر سے بجٹ میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ میں کیڑے نکالنا آسان کام ہے مگر اس وقت جو حالات ہیں ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی نے بھی تجاویز نہیں دی ہیں، اس وقت ہمیں ہر چیز سے بالا تر ہوکر ملک کیلئے سوچنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ سے قبل ایک سیشن ہونا چاہیے تاکہ ہماری اچھی تجاویز کو بجٹ میں شامل کیا جاسکے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں زرمبادلہ بچانے کیلئے غیر ملکی کوئلے کی جگہ ملکی کوئلے سے بجلی کی کمی کو پورا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں پڑوسی ممالک کے ساتھ ان کی کرنسی میں تجارت کرنی چاہیے تاکہ ہم ڈالر کی بلیک میلنگ سے نکل سکیں۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں زرعی شعبے کو توجہ دینی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ ہماری آبادی بڑھنے کی رفتار بہت زیادہ ہے اس جانب توجہ دینی ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں توانائی کی بچت کیلئے تمام نئی بلڈنگز کی تعمیر کیلئے شمسی توانائی کو لازمی کردیا جائے اور ملک میں شمسی توانائی کی سٹیشنز بنائے جائیں۔ انہوں نے کہاکہ سرکاری افسران کو ملنے والی گاڑیوں کی تعداد کم کی جائے اور ماہانہ پٹرول کی حد کم کی جائے۔ سینیٹر ڈاکٹر ہمایون مہمند نے کہاکہ ہماری بدقسمتی سے پاکستان میں آج بھی جنگل کا قانون ہے اور خوف کی فضا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس نظام کو عوام اپنے ووٹ سے ہی بدلے گی۔ انہوں نے کہاکہ گذشتہ ایک سال کے دوران جی ڈی پی گروتھ، زرعی شعبے، صنعتی شعبے، کنسٹرکشن کے شعبے اور دیگر شعبوں میں بے حد کمی واقع ہوئی ہے اور حکومت کے گذشتہ ایک سال کے دوران گدھوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ گذشتہ ایک سال کے دوران ٹیکس مراعات زیادہ دی گئی جبکہ ملک میں ڈالر مہنگا ہوگیا۔ آٹا مہنگا ہوگیا، حج مہنگا ہوگیا اور دیگر شعبوں میں مہنگائی آگئی مگر حکومت نے کسی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مولانا صاحب ایک سرجری کرا کر آئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایسی کون سی وجوہات تھی کہ پی ڈی ایم کو ملک پر مسلط کیا گیا۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے دور میں ملک ترقی کی جانب گامزن تھا مگر یہ طبقے ملک کے عوام کو خوشحال نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہاکہ آج پاکستان کا خزانہ خالی اور انصاف کمزور جبکہ عوام چوروں کے سپرد کر دئیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ خراب معاشی صورتحال کے ذمہ دار وزیر خزانہ ہیں جس کو خصوصی طور پر پاکستان لایا گیا ہے، اس پر بین الاقومی سطح پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرتا ہے کیونکہ یہ اعداد و شمار میں گڑ بڑ کرتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جب تک سیاسی حالات ٹھیک نہیں ہونگے اس وقت تک معاشی حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 18ویں ترمیم کے بعد بہت ساری وزارتیں صوبوں کو چلی گئی ہیں تو اب وفاق میں وزارتیں کیوں بنا دی گئی ہیں۔ اسی طرح توانائی کے شعبے میں لائن لاسز صوبوں میں ہوتے ہیں یہ رقم صوبوں سے کاٹی جائے اور وفاق پر اس کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ انہوں نے کہاکہ پاکستانی اداروں کے کھربوں روپے نجی بنکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان رقومات کو سٹیٹ بنک میں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ ریٹیل سیکٹر پر ٹیکس کیوں نہیں لگایا جارہا ہے۔ ہمیں آئی پی پیز کے ساتھ ری سٹرکچرنگ کرنی ہوگی۔ اسی طرح پنشن کے شعبے کو بھی دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں لینڈ ریفارمز کی ضرورت ہے۔ ملک میں کنسٹرکشن کے شعبے میں بلیک منی زیادہ ہے۔ رقم کے لین دین کو ڈیجیٹلائز کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں بڑی کمپنیاں ٹیکس چوریوں میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں پانی کی شدید قلت کو پورا کرنے کیلئے ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ بارشوں میں ہمارا زیادہ پانی ضائع ہوتا ہے اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ اس وقت ملک میں معاشی طور پر سنگین بحران ہے۔ ہمارے لئے دو راستے تھے کہ یا تو ہم یہ ذمہ داری قبول کریں اور اپنی سیاست کو دائو پر لگا کر ملک کا سوچیں، تو ہم نے ملک کا سوچا اور ریاست کا سوچا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس بحرانوں کے کئی اسباب ہیں۔ کوویڈ 19سے ہم بری طرح متاثر ہوئے، یوکریں کی جنگ نے ہمیں متاثر کیا ہے اور گذشتہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو توڑ دیا گیا جس سے آئی ایم ایف کے ساتھ اعتماد سازی کو دھچکا لگا ہے اور اس وجہ سے ملک آج تک مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کو مشکلات سے نکالنے کیلئے ہم سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ مشکل حالات میں اپوزیشن اور حکومت کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ اس وقت معاشی صورتحال کے بارے میں معاہدہ ہونا چاہیے۔ اس وقت عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے مسائل کا سامنا ہے اس سے نکلنے کیلئے ہمیں جامع پالیسی بنانی چاہیے۔ موجودہ حالات میں حکومت نے تنخواہوں میں جو اضافہ کیا ہے اس پر تحسین پیش کرتا ہوں۔ ترقیاتی بجٹ میں بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بھکاری نہیں بنائے جارہے ہیں بلکہ غریب اور ضرورت مند خاندانوں کی مدد کی جاتی ہے۔ اسی طرح اس پروگرام کے تحت نوجوانوں کو ہنر مند بھی بنایا جارہا ہے۔ اس وقت اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کیا جارہا ہے۔ توانائی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کو فاسٹ ٹریک پر لانے کی ضرورت ہے۔ یورپین یونین کے ساتھ تعلقات بہت اہمیت کے حامل ہیں اس پر توجہ دینی ہوگی۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات بہت اہم ہیں اور ہم امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کو بہیت اہمیت دیتے ہیں۔ پاکستان کی املاک کو نقصان پہنچانے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دیں گے۔ اپوزیشن کو اپنی بات تحمل سے کرنی چاہیے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا بجٹ بنانا مشکل کام ہے۔ میرا خیال تھا کہ بجٹ میں کوئی نئے اقدامات ہونگے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ مزید برآں سینٹ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے کراچی میں میئر شپ کے انتخاب کے معاملے پر واک آئوٹ کیا۔ گزشتہ روز سینٹ کے اجلاس کے دوران جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے نکتہ اعتراض پر کہاکہ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے تحت میئر کا انتخاب ہوگا وہاں پر میں چاہتا ہوں کہ اس ایوان میں دو تین باتیں کروں۔ انہوںنے کہاکہ کراچی ایک یتیم شہر بن گیا ہے۔ سینٹ میں ملک میں گدھوں کی تعداد میں اضافے کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے ارکا ن کی جانب سے نازیبا الفاظ کا استعمال  ہوا جسے کارروائی سے حذف کردیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر نثار کھوڑو نے کہاکہ ملک میں گدھے گذشتہ سال کے دوران پیدا نہیں ہوئے بلکہ گنے گئے ہیں، یہ اس سے پہلے پیدا ہوئے تھے جو کہ اب یتیم ہوچکے ہیں۔ جس پر پی ٹی آئی کے ارکان فوزیہ ارشد، سینیٹر فلک ناز اور سیف اللہ ابڑو اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور احتجاج شروع کیا۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے اور جواب دینا شروع کیا۔ دونوں طر ف شور شرابہ اور نامناسب الفاظ کا تبادلہ ہوا۔ جبکہ ڈپٹی چیئرمین انہیں خاموش کرواتے رہے۔

مزیدخبریں