اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی ریویو آف ججمنٹس کیس میں فریق بننے کی درخواست منظور کرلی تاہم ججمنٹ ریویو ایکٹ فوری معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہم نے پہلے ایک قانون کو معطل کیا ہے دوبارہ ایک اور قانون کو معطل نہیں کرسکتے۔ اپیل اور نظر ثانی میں بہت فرق ہے۔ اب ایکٹ سے اپیل اور نظر ثانی کو یکساں کردیا گیا ہے۔ کیا اب اس اپیل کے خلاف بھی نظر ثانی میں جانے کا آپشن ہوگا؟۔ آپ کو نہیں لگتا یہ معاملات جلد بازی کے بجائے تحمل سے دیکھے جائیں۔ وکیل درخواست گزار نے دلائل میں کہا ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ قانون کو معطل کر کے آٹھ رکنی لارجر بچ کے سامنے سماعت کیلئے مقرر کیا جائے۔ ریویو اینڈ ججمنٹ قانون اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی کئی شقوں میں مماثلت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا بتائیں پھر دونوں قوانین میں کیا یکساں ہے۔ وکیل درخواست گزار نے کہا ریویو ایکٹ آرٹیکل 10 اے کے خلاف ہے جبکہ عدلیہ کی آزادی میں بھی مداخلت ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اور ری ویو ایکٹ کا مقصد ایک ہی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا دونوں قوانین الگ الگ دائرہ اختیار سے متعلق ہیں۔ پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ فیصلوں پر نظر ثانی کرسکتی ہے۔ آرٹیکل 188 میں ری ویو کا ذکر ہے۔ اس ضمن میں 1956 کے آئین میں بھی وہی لینگویج استعمال ہوئی جو 1973میں ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا سپریم کورٹ کے فیصلوں کا حتمی ہونے کا ایک تصور موجود ہے جبکہ نظر ثانی میں شواہد دوبارہ نہیں دیکھے جاتے۔ نظرثانی کا دائرہ اختیار اپیل جیسا نہیں ہوسکتا ہے جس میں سابقہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہو۔ نظر ثانی اور اپیل دو الگ الگ دائرہ اختیار ہیں۔ آئین سپریم کورٹ فیصلے کے خلاف اپیل کا نہیں کہتا ہے۔ جسٹس دراب پٹیل، جسٹس فخر الدین جی ابراہیم جیسے ججز اس پر فیصلے دے چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا آرٹیکل 188 ایکٹ آف پارلیمنٹ کی بھی بات کرتا ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا آرٹیکل 175 میں عدالتوں سے متعلق وضاحت موجود ہے جبکہ آرٹیکل 142 قانون سازی کو آئین سے مشروط کرتا ہے۔ کسی معاملے پر مجلس شوریٰ آئین کے مطابق قانون سازی کر سکتی ہے۔ کوئی بھی قانون بنیادی آئین کی خلاف ورزی میں نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ آرٹیکل 188 کو ایکٹ آف پارلیمنٹ سے مشروط کیا گیا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کیا ایکٹ کے ذریعے نظرثانی کی محض نوعیت نہیں بدلی گئی؟۔ وکیل علی ظفر نے کہا نئے ایکٹ سے نظر ثانی کو اپیل جیسا اختیار دیا گیا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے اسفسار کیا کل فل کورٹ رولز بدل دے تو کیا ہوگا۔ جس پر وکیل علی ظفر نے کہا رولز کو بھی آئین پر فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔ ایسے ہی قوانین بنتے رہے تو کیا پتہ کل سیکنڈ اپیل کا قانون آجائے۔ چیف جسٹس نے کہا انڈیا میں ان چیمبر کیوریٹیو لگایا گیا ہے جبکہ وہاں یہ ریویو دو گرائونڈز پر ہوتا ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا اپیل در اپیل کا حق ملتا گیا تو سپریم کورٹ کے فیصلے حتمی نہیں ہونگے جبکہ ایسا کرنے سے سپریم کورٹ کے اندر سپریم کورٹ بن جائے گی۔ اپیل کے بعد سپر اپیل جیسا ہی ہوگا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے پنجاب الیکشن اور ریویو اینڈ ججمنٹ کیس کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی۔