آواز خلق
فاطمہ ردا غوری
مولانا جلال الدین رومی کی ایک مشہور غزل کا شعر ہے
دی شیخ باچراغ ھمی گشت گرد شہر
کزدوام ودرملولم و انسانم آرزوست
ترجمہ : کل شیخ چراغ لئے شہر میں گھوم رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ وحشی جانوروں اور درندوں سے رنجیدہ ہوں مجھے کسی انسان کی آرزو ہے
آجکل عید الضحی کی آمد آمد ہے ہر طرف مال مویشی کا دور دورہ ہے ایک طرف عیدالضحی کی مناسبت سے خصوصی طور پر منڈی مویشیاںنے رونق لگا رکھی ہے تو دوسری جانب حکومتی ایوانوں میں بھی بجٹ کے حوالے سے منڈی لگی ہوئی ہے اور اس اعلی سطح کی ایوانی منڈی میں بھی بدقسمتی سے انسانوں کی شکل میں عوام کا گوشت نوچنے والے درندوں کا ہی راج ہے دونوں جگہوں میں خاصی چہل پہل ہے ایک طرف منڈی مویشیاں میں نت نئے جانور لائے جا رہے ہیں وہیں دوسری جانب سیاست میں بجٹ کے نام پر انسانوں کا خون پینے کی تیاری جاری ہے
کچھ آٹے دال کی نہ بات پوچھو
کہ قیمت انکی چڑھتی جا رہی ہے
چھڑا ہے ذکر جس دن سے بجٹ کا
گرانی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے
خلائی لیب کے گرنے سے پہلے
حوادث پیش کتنے آ گئے ہیں
اچانک اک بجٹ آ کر گرِا ہے
کروڑوں لوگ نیچے آ گئے ہیں
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ حکمرانوں کے غیر پیداواری اخراجات روز بروز بڑھ رہے ہیں جسکی وجہ سے اخراجات ہمیشہ ذیادہ اور آمدنی کم رہتی ہے ساتھ ہی ساتھ یہ امر بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بڑے لوگوں سے ٹیکس وصولی مشکل اور کسی حد تک ناممکن ہونے کی وجہ سے حد سے زائد اخراجات پورے کرنے کے لئے غیر ممالک سے قرض لینا پڑتے ہیں یا غریبوں پر اور آسانی سے ہاتھ آ جانے والے مجبور اور بے بس طبقے پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ٹیکس لگا دےے جاتے ہیں اسلئے عوام کی فلاح و بہبود اور سوشل سیکٹر مثلاََ تعلیم ،علاج ومعالجہ اور روزگار کے وسائل پیدا کرنے کے لئے بہت کم رقم بچ پاتی ہے حالانکہ ترقی و خوشحالی کے لئے انہی شعبوں کے لئے ذیادہ سے ذیادہ رقوم مختص کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا نہ ہونا ہی تنزلی اور ڈاﺅن فال کی بڑی وجہ ہے !!!
انور مسعود نے کیا خوب کہا ہے کہ
بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے
انوکھے انوکھے خسارے ترے
اللے تللے ادھارے ترے
بھلا کون قرضے اتارے ترے
صورتحال اس حد تک افسوسناک ہو چکی ہے کہ بجٹ جو عوام کی آسانی اور سکون کے لئے مختص کیا جانا مقصود ہوا کرتا تھا اب اسکے معنی ہی بدل چکے ہیں اب نہ بجٹ کا تقدس رہا اور نہ ہی مقتدر ہستیوں کی زبان ، الفاظ ، وعدوں اور دعووں کا تقدس رہا قارئین بجٹ تقریر میں قابل عزت غیر ملک کی شہریت ترک کر چکے پاکستانی عوام کے لئے درد دل رکھنے والے وزیر موصوف بتلا رہے تھے کہ پاکستانی ایئر لائن سمیت دیگر قومی ادارورں کو نجکاری کے نام پرغیر ملکی کمپنیوںکو پیش کر دیا گیا ہے اور ٹینڈرنگ بھی بہت جلد مکمل کر لی جائے گی جس میں پاکستان بھر کے ایئرپورٹس بھی شامل ہیں اور شروعات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد کے ایئرپورٹ سے ہو گی الامان الحفیظ ۔۔۔
اگر عام فہم زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو ہمت سے سنئے قومی املاک کو ٹھیکے پر دینے کا فیصلہ سامنے لایا جارہا ہے تمام پاکستانی یہاں تک کہ پیدا ہونے والے نوازائیدہ بچے ” مقروض “ تو پہلے سے ہی ہیں اب شائد وہ دن دور نہیں جب پاکستانی املاک کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی کسی نہ کسی طریقے سے آﺅٹ سورس کر دیا جائے گا ۔۔۔!!!
قصہ مختصر ایوان کی رونقیں اور عید الضحی کی منڈیاں اپنے اپنے عروج پر ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ منڈی مویشیاں والے جانتے ہیں، تسلیم کرتے ہیں کہ وہ جانور ہیں وہ اپنی جنس سے مطمئن ہیں جبکہ سیاسی منڈی والے اپنی سمجھ بوجھ اور حرکات و سکنات سے تو یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ انسانیت کے درجے پر فائز نہیں لیکن زبان سے مسلسل اس حقیقت سے منحرف ہیں اور بضد ہیں کہ ان کو ملکی مفاد میں نظریہ ضرورت کے تحت انسان ہی کہا جائے خواہ ان کے اعمال و افکار میں انسانیت کی جھلک دیکھنے کو ملے یا نہ ملے !
متذکرہ بالا پس منظر میں ایک اور خاص بات یہ ہے کہ منڈی مویشیاں والے جانورکبھی بھی یہ نہیں کہتے کہ وہ بکنے کے لئے نہیں ہیں یا وہ کبھی بھی فروخت نہیں ہونگے بلکہ وہ کھلے دل سے اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ یہاں بکنے کے لئے ہی موجود ہیں تاہم ایوانوں میں تشریف فرما قوتیں حقیقت میں تو جانتی ہیں کہ وہ وقت آنے پر بک بھی سکتے ہیں ،جھک بھی سکتے ہیںاور ملک وقوم کے " بہترین مفاد" میں اپنے آپکو فروخت بھی کر سکتے ہیں لیکن دکھ کی بات ہے کہ یہ انسان کہلانے کے خواہاںکبھی بھی کھلے دل سے تسلیم نہیں کرینگے کہ ہاں ہم بھی موقع کی مناسبت سے برائے فروخت ہی ہیں!!!
بات اور طرف نہ نکل جائے آج تو آپکو عیدا لضحی عید قرباں کی پیشگی مبارکباد دینامقصود تھا اور ساتھ ساتھ اپنے معزز راہنماﺅں سے درخواست ہے کہ قربانی کے اہم دینی فریضہ کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنی انا،ذاتی مفادات اور رنجشوں کی بھی قربانی دی جائے ،زیادہ نہیں تو کم از کم اپنی ذات کے ساتھ مخلصی اورسچائی کا مظاہرہ کیجئے اور ملک و قوم کے مفاد میں سوچتے ہوئے نظریہ ضرورت کے فارمولے سے ہٹ کر جمہوری عمل کو آگے بڑھاےئے عوام کی بہتری اور آسانی کی راہیں ہموار کریں ۔۔ کم از کم ان الفاظ کا پاس رکھیں جن کے بنیاد پر عوام کے کانوں میں رس گھول کر آپ بر سر اقتدار آتے ہیں وہی الفاظ سیسہ بن کر تکلیف دہ ثابت ہونے لگیں تو اس سے ذیادہ افسوسناک امر اور کیا ہو گا ؟
آخر میں برسر اقتدار اور منتظر اقتدار صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح ثابت کرنے والوں ،سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے کی چاہت رکھنے والوں ،ذاتی مفادات کی آڑ میں عوام کو ناسمجھ سمجھتے ہوئے پھرسے بیوقوف بنانے کے خواب دیکھنے والوں اور اس بجٹ کی صورت عوام کے خوابوں کو چکنا چور کر دینے والوں کو ایک حکایت سنا کر اجازت چاہوں گی کہ حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ کے مریدوں میں سے ایک کے دل میں خیال آیا کہ اب وہ کمال کے درجہ پر پہنچ چکا ہے اور اس کی تنہائی ان کی صحبت سے بہتر ہے چنانچہ وہ گوشہ نشین ہو گیا جب رات ہوتی تو شیطان اس کے پاس ایک اونٹ لاتا اور کہتا کہ تمہیں بہشت لے کر جانا ہے وہ مرید خوشی خوشی اس اونٹ پربیٹھ جاتا اور ایک نہایت پر فضا مقام پر پہنچ جاتا وہاں خوب لطف اندوز ہوتا جب بیدار ہوتا تو خود کو اپنی جگہ پر ہی موجود پاتا اس کے دل میں تکبر اور غرور آنے لگا اور وہ زبان سے بلند و بانگ دعوے کرنے لگا یہ خبر حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ تک بھی جا پہنچی حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اپنے اس مرید کے پاس تشریف لے گئے حال احوال دریافت فرمایا تو مرید نے سارا ماجرا لفظ بہ لفظ کہہ سنایا سارا ماجرا سن کر حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ نے فر مایا کہ آج رات جب تو اس مقام پر پہنچو تو تین بار " لا حول و لا قوة الا باللہ " پڑھ لینا رات ہوئی وہی سارا منظر دہرایا گیا جب مرید اس پرفضا ، پرآسائش مقام پر جا پہنچا تو اس نے حکم کے مطابق ”لاحول ولا قوة الا باللہ “کا ورد کیا تو سارے کا سارا طلسم ٹوٹ گیا اور وہ مرید اپنی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہو گیا آج میری بھی تمام صاحب اقتدار اورمنتظر اقتدار ہستیوں سے جو کہ سیاسی بصیرت وجوڑ توڑ اورنظریہ ضرورت کے تحت سب کچھ کر گزرنے میں کشاکش ہیں سے نہایت عاجزی کے ساتھ درخواست ہے جب بھی اپنے اپنے تخیلات میں حد سے زیادہ بلندیوں کو چھونے لگیں تو سب کے سب ایک دفعہ " لاحول و لا قوة الا باللہ " ضرور پڑھ لیں اس کے بعد کون صحیح ہے کون غلط ہے کون کتنے پانی میں ہے؟ سب کچھ ایک دم صاف شفاف ہو جائے گا باقی رہی ہم عوام کی بات تو ہمیں تو امیر مینائی مرحوم بہت پہلے سے یہ تعلیم دے گئے تھے کہ
دیکھ جو کچھ سامنے آ جائے منہ سے کچھ نہ بول
آنکھ آئینے کی پیدا کر دہن تصویر کا