نواب زادہ نصراللہ اور سردار قیوم خان بہت یاد آئے

بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com

ضیا  دور میں جب اہل اقتدار کی سیاسی گرفت کمزور پڑنے لگی تو ایم آر ڈی کے سربراہ نواب زادہ نصراللہ خان سے” دوسرے آپشن“ کو استعمال کرنے کی بابت سوال کیا گیا، تھوڑے توقف کے بعد جمہوری وطن پارٹی کے قائد نے کفیی اعظمی کا شعر سنا کر خوبصورت اور دلکش جواب دے دیا کہ ہمیں صرف جمہوریت اور بحالی جمہوریت سے غرض ہے سیاست دنوں کی اس سے بڑی کامیابی اور ہدف کچھ نہیں !! 
ان کو خدا ملے ہے خدا کی جنہیں تلاش
مجھ کو تو اک جھلک میرے دلدار کی ملے
27 دسمبر 1971.... سقوط ڈھاکہ کا روح کش منظر‘ 1973-1972 اور 1974 کے لمحات بزرگوں کو یاد ہیں۔ قوم بوجھل دل سے آگے بڑھ رہی تھی حسرت ‘ یاس ‘ نا امیدی اورپڑمردگی کے تاثرات چہروں پہ لئے قوم زندہ تھی۔ مایوسی اور غیر یقینی کے اثرات خیبر سے کراچی اور کشمیر سے گلگت تک محسوس کئے جاسکتے تھے، ایسے میں دو فیصلے ”مردہ قوم“ کو زندگی کی طرف لے آئے۔ 1974 کے دوران لاہور میں اسلامی کانفرنس اور مسلم کانفرنس کے سردار عبدالقیوم خان کا ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا نعرہ مستانہ !! دونوں دل افروز فیصلوں نے سیاسی ‘ سماجی اور عالمی منظر نامے پر گہرے نقوش چھوڑے۔ سردار عبدالقیوم خان واحد سیاست دان تھے جن کا پاکستان اور پاکستانی سیاست میں باعزت مقام تھا وہ ہر جگہ اور ہر فورم پر پاکستان کے ترجمان نظر آتے، ان کی زبان اور انداز سیاست سے کبھی پاکستان اور پاکستان کے مفادات سے ٹکرانے والا ایک لفظ بھی ادا نہیں ہوا۔ سردار صاحب 20 برس تک آزاد کشمیر کی سود اعظم آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے بلاشرکت غیرصدر رہے ،انہیں مفاہمت کا بادشاہ کہا اور سمجھا جاتاتھا۔ جنرل ضیا اور اس وقت کی ”تگڑی اپوزیشن “میں یہ جناب سردار قیوم تھے جو فریقین کو مذاکرات کیلئے آمادہ اور انہیں ایک ٹیبل پر لائے۔ لمحہ موجود کی سیاست میں مفاہمت کا لقب لینے والے بادشاہ گر آج بھی سردار صاحب کے بلند کردار سے روشنی لے رہے ہیں 
”اب بات کرتے ہیں سردار عتیق احمد خان کی“ آسمان نے بہت کم ایسے مناظر دیکھے جب والد کے بعد صاحب زادہ جماعت کا سربراہ اور وزیراعظم بنا۔ سردار عتیق کو یہ اعزاز بھی ملا وہ دوبار وزارت عظمی کے عہدہ جلیلہ پر فائز رہے۔پہلی مدت 24 جولائی 2006 سے جنوری 2009 تک محدود رہی۔ انہوں نے اپنے دور میں والد مرحوم کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ خوش قسمتی سے سردار عتیق آج آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے صدر ہیں 11 مئی 2024ءکے بعد کے تین روز آزاد کشمیر کی سیاسی تاریخ کے نہ بھولنے والے تلخ دن ہیں۔42 لاکھ افراد کی ریاست میں عوامی احتجاج حکومتی دعووں ‘ وعدوں اور دلفریب نعروں کو بہا کر لے گیا اس کے بعد کے مناظر سے سب آگاہ ہیں ہم صرف ان تکلیف دہ اور آزردہ لمحات کا ذکر کریں گے جنہوں نے دل‘ دماغ بلکہ روح تک کو زخمی کردیا۔ شہیدوں‘ غازیوں اور مجاہدوں کی اس سرزمین پر پاکستان مخالف نعرے اور پروپگینڈہ کی بازگشت سنی گئی۔گویا اس سارے ناپاک اور ناپسندیدہ عمل میں بھارت اور اس کے حواری ملوث تھے جنہوں نے سوشل میڈیا کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے برے طریقے سے استعمال کرکے نوجوان نسل کو گمراہ کیا۔ دشمن کا کام ہی وار کرنا اور مصیبت‘ بے کلی سے فائدہ اٹھانا ہے۔ دکھ‘ افسوس اور حیرت آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس اور اس کے سربراہ پر ہے۔ سردار عتیق نے 11 مئی سے قبل اور بعد میں مفاہمت کے روشن چراغوں کو اہمیت نہ دی۔ ہم سردار صاحب سے عرض گزار ہیں کہ وہ آگے بڑھیں آج آزاد کشمیر اور پاکستان کو ان کے سیاسی کردار کی ضرورت ہے۔ وہ سردار قیوم کے اس خانوادے کا حصہ ہیں جس نے ہر آن محبت اور رواداری کے پھول تقسیم کئے بقول اختر فیصل آبادی
نہ پاتیں نہ شکوے شکائیت کریں گے
 محبت میں اول تھے اول رہیں گے
اگر کی کسی نے بھی نفرت ذرا سی
ہم پھر بھی محبت‘ محبت کریں گے
 اللہ پاک کروٹ کروٹ مجاہد اول سردار عبدالقیوم پر اپنی رحمتیں فرمائے جنہوں نے کشمیر کا الحاق پاکستان کا بیڑا اٹھایا تھا۔ میری نسل کے سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک سردار صاحب حیات تھے اس وقت تک " کشمیر بنے گا پاکستان " کا نعرہ چاروں صوبوں میں گونجتا تھا کشمیر اور کشمیریوں کے پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ محبت کے نعرے گونجتے تھے بطور سیاسی جماعت مسلم کانفرنس کا اس میں بہت مظبوط کردار تھا سردار صاحب کا کشمیر کا الحاق پاکستان کے بارے کوئی سمجھوتہ نہیں تھا مجھے دکھ اس بات کا ہے کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ فرزند ارجمند محترم سردار عتیق آگے لے کر نہیں چل سکے تمام سیاسی مصلحتیں اپنی جگہ پر مگر سردار عتیق صاحب کو اس نعرے کا چوکیدار بن جانا چاہیے تھا جب بھی الحاق پاکستان ہو گا تاریخ میں مسلم کانفرنس اور سردار عبدالقیوم خان کا نام لکھا جائے گا بات تھوڑی سی تاریخ کی طرف نکل گئی۔ ہماری سردار عتیق سے گذارش ہے کہ فرزند ہونے کے ناطے نہیں بلکہ سیاسی وارث ہونے کے باعث وہ محبت کے پل کا کردار ادا کریں۔آج غیر محسوس طریقے سے کشمیریوں اور پاکستانیوں کے درمیان دوری اور بد گمانی پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سردار صاحب اس سازشی تھیوری کو فوری ختم کرنے کے لئے باہر نکلیں۔ یادش بخیر … محترم مجاہد اول پاکستان میں یا پاکستان کے باہر جب بھی دورے پر جاتے وہاں صحافیوں،ادیبوں اور اہل علم کے ساتھ نشست ضرور رکھتے تھے آج پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ سردار عتیق صاحب مسئلہ کشمیر اور الحاق پاکستان کا نظریہ نوجوان نسل تک پہنچائیں جنہیں کشمیریوں کی قربانیوں کا بالکل بھی پتہ نہیں ہے۔ ہماری حکومت پاکستان اور اہم اداروں کے ارباب اختیار سے گذارش ہے کہ کشمیری لیڈرز جو کشمیر کے وزیراعظم یا صدر رہ چکے ہیں انہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں ضرور نمائندگی دلائیں تا کہ وہ پاکستان اور پاکستان سے باہر عالمی فورم پر سرکاری سطح پر پاکستانیت کے فروغ میں مثالی کردار ادا کر سکیں

ای پیپر دی نیشن