سردار نامہ .... وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
ملک میں اصلاحات لانے کے لیے 18ویں ترمیم لائی گئی اور اس ترمیم کے تحت بہت سے کلیدی فیصلے کیے گئے اور انہی اہم اور کلیدی فیصلوں میں سے ایک فیصلہ یہ تھا کہ اس ترمیم کے تحت تعلیم کے شعبے کو وفاقی سے واپس لے کر صوبوں کے حوالے کر دیا گیا اور اب وفاق میں موجود وزارت تعلیم اس حوالے سے بے معنی ہو چکی ہے۔اب تعلیم کا شعبہ صوبوں کے پاس تو چلا گیا ہے لیکن صوبائی حکومتوں کے پاس وہ محکمے موجود نہیں ہیں جو کہ تعلیم کے شعبے میں تعلیم اور تربیت کا لازمی جزو ہوا کرتے ہیں۔ثقافت اور سپورٹس کے محکمے بھی وزارت تعلیم کے ماتحت ہو نے چاہیے کیونکہ تعلیم کا ثقافت اور کھیل کے ساتھ لازم و ملزوم تعلق ہے۔دنیا بھر میں سکول کالجوں اور یو نیو رسٹیوں کی ٹیمیں بنائی جاتی ہیں جو کہ مختلف کھیلوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتی ہیں اور ملک کا نام روشن کرتی ہیں ماضی میں ہمارے ہاں بھی سکولوں کالجوں اور یو نیورسٹیوں سے ٹیلنٹ سامنے آیا کرتا تھا جس سے بہترین کھلاڑی بھی سامنے آتے تھے لیکن اب صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے ، اور اس کے اثرات بلکہ کہنا یہ چاہیے کہ اس تباہی کے اثرات ہم دیکھ رہے ہیں جو حشر ہماری کرکٹ ٹیم کا ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہی ہے۔کرکٹ تعلیمی اداروں سے نکال کر ایسو سی ایشن کے حوالے کردی گئی اور ہمیں معلوم ہی ہے کہ ہمارے ملک میں ایسو سی ایشنز کا کیا حال ہو تا ہے ،ان میں کس طرح سے سلیکشن کی جاتی ہے اور کس طرح سے معاملات چلتے ہیں ،کھلا ڑیوں کا انتخاب کس طرح ہو تا ہے ،دوستی یاری چلتی ہے اور یہی سے خرابی کا آغاز ہو تا ہے۔ جب تک کھلا ڑی تعلیمی اداروں سے آتے تھے تب تک کھلا ڑیوں میں ایک جان تھی ایک شان تھی اس کے بعد نظام تبدیل کرنے سے تباہی کا راستہ آیا۔ یہاں پر کہنا پڑے گا کہ حادثہ یکدم نہیں ہوتا اس کے پیچھے کئی برسوں کی تباہی ہو تی ہے جو کہ اچانک سامنے آتی ہے۔ہمیں ان معاملات کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے میرٹ کے بغیر کو ئی بھی ملک آگے نہیں بڑھ سکتا ہے ہمیں ملک کے نظام میں میرٹ کو واپس لانے کی کوشش کرنا ہو گی یہی آگے بڑھنے کا درست راستہ ہے بہر حال تعلیم کے محکمے میں کھیلوں اور ثقافت کو بھی شامل کرنا ہو گا اور زیر تعلیم نوجوانوں کو اس حوالے سے بھی اگاہی ان کی تعلیم کا حصہ بنانا ہو گی اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کو بھی تعلیم کا لازمی حصہ بنانا ہو گا تب جاکر ہی تعلیم، تعلیم ہو گی۔ہمیں اس طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ،حکومتیں بنائی جاتی ہیں تو اخراجات ایسے کیے جاتے ہیں جیسے کہ ملک دنیا کا سب سے امیر ترین ملک ہے 40,،40اشخاص پر مشتمل کا بینہ بنائی جاتی ہے جو کہ سرا سر زیادتی ہے اور ہونا تو یہ چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ 11اشخاص پر مبنی کا بینہ ہو جو کہ ملکی معاملات کو سنبھالے۔کرکٹ کی جو درگت بنی ہے یہی حال تعلیم کا ہے اور بیو رو کریسی کے حالات بھی ایسے ہی ہیں ،بیو رو کریسی کو ایڈ ہاک بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے کئی یو نیو رسٹیاں بغیر وائس چانسلر کے ایڈ ہاک بنیادوں پر چلا ئی جارہی ہیں ، بجٹ میں تعلیم اور صحت پر کم سے کم خرچ کیا جاتا ہے۔بجٹ میں سب سے کم حصہ ان شعبوں کے لیے رکھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم انسانی ترقی جو کہ کسی بھی قوم کی ترقی بنیاد ہوتی ہے اس میں اتنا پیچھے ہیں۔ کوئی بھی قوم جب تک صحت مند نہ ہو اور جب تک تعلیم یافتہ نہ ہو تب تک اس کا آگے بڑھنا محال ہے۔ جب تک کہ تعلیم اور صحت پر خرچ کو بڑھائیں گے نہیں تب تک مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے ہیں ، اور اسی وجہ سے ہمارے بہت سے معاملات بشمول گورننس کے خراب سے خراب تر ہو تے چلے جارہے ہیں۔ اگر ہم نے اپنے حالات کو نہ بدلا تو ہمارے حالات بھی ویسے ہی رہیں گے اور کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور ہماری دنیا میں تعلیمی رینکنگ جو کہ 140ویں ہے ویسی کی ویسی ہی رہے گی۔ہمیں اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں سنجیدہ فیصلے کرنا پڑیں گے۔اس کے بغیر اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کو صیح جمہوریت کی جانب بڑھایا جائے اور حقیقی جمہوریت لائی جائے ،عوام کی رائے کا احترام کیا جانا لازم ہے اور ہمیں اس جانب بڑھنا ہو گا اگر عوام کی منشا کے بغیر حکومتیں آئیں گی اور عوام کی رائے کو یکسر مسترد کر دیا جائے گا تو خرابی پیدا ہو گی اور بطور قوم ہم جن نتائج کی توقع رکھتے ہیں یہ نتائج ہمیں حاصل نہیں ہو سکیں گے۔حقیقی طور پر عوامی حکومت ہی ملک کو بہتر انداز میں آگے بڑھا سکتی ہے اور اگر عوا کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے تو جمہوریت بے معنی ہو جاتی ہے اور یہ ایک لا حاصل تجربہ بن جاتا ہے۔یہ ملک بنا تھا کہ اسلامی دنیا کی قیادت کرے گا یہاں پر جمہوریت ہو گی ،قانون کی حکمرانی ہو گی امن و امان ہو گا عوام خوشحال ہوں گے اور ہم باقی اسلامی دنیا کے لیے ایک ماڈل ایک مثال بنیں گے لیکن یہاں پر تو سب کچھ ہی الٹا ہو گیا ہے۔ہم باقی اسلامی ممالک سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ خواب بکھر چکے ہیں اور ہم خود غرضی خود نمائی ،اور کرپشن کا شکار ہو چکے ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ کرپشن میں گھل مل گئے ہیں۔ہمیں اس صورتحال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔جو سبق ہمیں بطور قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے دیا تھا اس سبق کی طرف بڑھنے میں اس کو اپنانے میں مکمل طور پر ناکا م ہو ئے ہیں ،اور اب اس بھنور اور بحران در بحران جیسی صورتحال سے نمٹنے کا طریقہ یہی ہے کہ عوام کا فیصلہ تسلیم کیا جائے بہتری کا راستہ یہیں سے نکلے گا۔