’میثاق اخلاق“
”میثاق“ کسقدر منفرد ۔ خوبصورت نام ہے کہ برسوں پہلے سے لکھے ہوئے اِس عنوان کے تحت چھپنے والے کالمز کے بعد مشہوری ہوگئی ”سیاست ۔ پاکستان۔ معیشت ۔ میثاق عوام ۔ میثاق اخلاق“ سبھی پر تحریریں ریکارڈ کا حصہ بن چکی ہیں۔ حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں سب کو ضرور اکھٹے بیٹھنا چاہیے ۔ اب سوچنے کا نہیں ۔ مل بیٹھ کر عوام دوستی پر مبنی متفقہ ۔ عملی لائحہ عمل تشکیل دینا پڑے گا۔ ہر وقت طعن ۔ تنقید ۔ بے جا تقلید ۔ کردار کشی شخصیات کی ۔ اداروں کی ہرگز قابل تحسین شعار نہیں۔
انتہائی افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ ”ذاتی دشمنی پر پہنچی ہوئی سیاست“ نے معاشرت ۔ عوام کے رنگ بگاڑ دئیے ہیں معاشرے میں اُبلتے طوفانوں سے سبھی آگاہ ہیں مگر کوئی اپنا مثبت حصہ ڈالنے پر آمادہ نہیں۔ آئیے سب ”میثاق اخلاق“ کی بنیاد رکھتے ہوئے عہد کریں کہ اب سب صرف اور صرف ”پاکستان“ کی محبت میں سوچیں گے۔ عملی کریں گے۔ اپنے وطن کی سلامتی پر کوئی کمپرومائز نہیں کرینگے ۔ کمپرومائز کرنا بنتا ہے تو صرف کہ عوام کی بہبود۔ تحفظ پر۔
سب دوسروں کی ذات کو بُھلا دیں۔ اپنی توجہ صرف مختص کردہ ذِمہ داریوں پر مرتکز رکھیں ۔ ذاتیات سے ہٹ کراجتماعیت پر کام کریں ۔ ذاتی مقدمات ختم کر دیں۔ جھوٹے الزامات ۔ بے بنیاد۔نازیبا کِردار کشی پہلے خود ”سیاستدان“ لگانا بند کریں معاہدہ کریں کہ کوئی بھی اپنی حکومت میں کِسی پر بھی جعلی ۔ جھوٹی ”ایف آئی آر“ نہیں کاٹے گا۔ ”میثاق اخلاق“ ہو کہ سیاسی و سماجی ۔ کاروباری مخالفین کے خلاف ”قومی وسائل“ کا استعمال نہیں کرےگا۔ اپوزیشن یا حکومت ہر دو حیثیت میں بیانیہ ایک ہوگا۔ عوام سے وعدے ہر دونوں صورتوںمیں پورے کرنے کا معاہدہ کریں۔ عورتوں ۔ بوڑھوں ۔ بچوں کی عزت ۔ تحفظ کو اولیت دی جائے گی ۔ ”حکمران۔ وزیر“ بننے کی صورت میں اپنے کاروبار کی بڑھوتری کیلئے اپنی سرکاری حیثیت کا استعمال نہیں کرینگے ۔ ناجائز سفارش یا اقربا پروری سے کلیتاً گریز کی پالیسی کا معاہدہ کریں۔ محض ذاتی عناد۔ سیاسی رنجش کیلئے مخالفین کی پکڑ دھکڑ ۔ چھاپے ۔ گرفتاریاں ہرگز نہیں کرینگے ۔جو دعویٰ ہے تکلیف کا احساس اپوزیشن میں ہے وہ ”حکومتی گدی“ پر بیٹھنے کے بعد بھی نہیں بدلنا چاہیے ۔
ہاں یہ ضرور ہو کہ ہر اُس شخص کو واقعی کیفرکردار تک ضرور پہنچائیں جس نے کبھی بھی ملکی سلامتی کو کِسی نہ کسی انداز بیان‘ عمل سے نقصان پہنچایا۔ پیسہ کھایا ۔ ناجائز عمل سے نقصاں پہنچایا۔ ناجائز مال غیرقانونی طریقوں سے باہر کے ممالک میں منتقل کیا۔ کروایا۔البتہ اپنی محنت ۔ ذاتی کمائی کے بل بوتے پر بیرونی ممالک میں جائیدادیں خریدنے اور سرکاری حیثیت سے سرکاری کرپشن سے خریدنے‘ بنانے والوں میں فرق کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے۔ اِس فرق کو سب خود ہی حتمی طور پر طے کر دیں تاکہ ازاں بعد سیاسی تناو¿ پیدا نہ ہو سکے۔
”میثاق عوام“
سب سے زیادہ ضروری ۔لازمی معاہدہ عوام سے کریں ۔ پارٹی منشور کبھی بھی تکمیل کی تعبیر نہیں پا سکے ہیں ۔عہدہو کہ صرف اور صرف عوام کے مفاد پر مبنی فیصلے ہونگے ۔ عوام کو مزید چکی میں پیسنے کا عمل بند کرنے کا معاہدہ کریں۔ اخراجات گھٹانے کا آغاز حکومتی محکموں ۔ وزارتوں ۔ ریاستی محلات سے کریں ۔عہد کریں کہ کوئی بھی ”اقتدار“ میں آکر ”ذاتی رہائش گاہوں“ کو سرکاری رہائش گاہ میں نہیں بدلے گا۔ سابق حکمرانوں کو حاصل تاحیات مراعات ختم کر دیں ۔ اِس مد میں پہل کریں دیکھئیے ”اربوں روپے“ کی بچت ہو گی۔ سب” سابق“ امیر ترین۔ کامیاب اشخاص میں شمار ہوتے ہیں۔ دوسرا مرحلہ ۔ غیر ملکی دوروں کو مکمل ختم کر دیں ۔ صرف اشد ضروری ”عالمی اکٹھ“ کی صورت میں جائیں وہ بھی مختصر وفد کے ساتھ اور سادگی میں۔
حقیقت یہ ہے کہ ”76سالہ“ لاکھوں کامیاب قرار دئیے گئے دوروں میں سے ایک دو کے معاہدات پر بھی عمل ہو جاتا تو ہمارے حالات بہت بہتر ہوتے۔ دِل کو لُبھانے والے الفاظ کا انتخاب (عمل نہیں) لش پش طول طویل تقاریر (جن کا مقدر صرف ردی کی نذر ہونا لکھا ہے) اِسی لیے ثمرات سے محروم رہے ۔ اب اُمید پھر سے جاگ اُٹھی ہے کہ حالات بدلاو¿ کی طرف جار ہے ہیں۔ مثبت تبدیلیوں کی طرف۔ قوم و ملک کے مفاد کے تحفظ کی طرف۔اچھائی کی اُمید جگائیں ۔ اچھائی پھیلانے میں تمام زعماءکرام۔ میڈیا گروپس اپنا مثبت ۔ بھرپور ادا کرنے کا معاہدہ کریں۔ پاکستان کا مثبت۔ محبت بھرا چہرہ دکھانے کا عہد ۔ پاکستان کو حاصل ارضی جنتوں کے مناظر دکھانے کا عہد ۔ قوم کو آزاد ۔ایماندار قوم بنانے میں اپنا سرگرم کردار اداکرنے کا پکا ۔ مضبوط عہد کریں۔
”غیر ملکی اشیاءپر مکمل پابندی“
ایسی خوراک جو واقعی لازمی ہو انسانوں ۔ حیوانوں کے لیے جو ہمارے وطن میں نہ بنتی ہو ۔ وہ اشیاءجن کے بغیر گزارہ ممکن نہیں ان سب کے علاوہ تمام غیر ملکی ساختہ اشیاءپر مکمل پابندی لگا دیں۔ اِس ضمن میں عوام کی بہتری کے عنصر کو کیوں نہیں سامنے رکھتے ؟؟ قوم کو اپنے وسائل میں رہنے اور اپنے ہاں مصنوعات پیدا کرنے کی طرف راغب کرنے کے لیے یہ قدم اب کاغذی تجاویز سے اُٹھا کر عمل کی ٹوکری میں ڈالنا پڑے گا اگر ہم خودمختار قوم ۔ آزاد ملک کے باسی کے طور پر مستقبل میں رہنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔
”خیراتی سکیموں کی بندش“
عہدکریں کہ خیراتی سکیموں کو بند کرنا ہے۔ قوم کو بھکاری بنانے کی دہائیوں پر محیط کوششوں کو اب اُنھیں ہنر مند بنانے اور اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے کے منصوبوں میں بدلنا ہے۔ ”کھربوں روپوں“ سے گداگر پیدا کرنے کی بجائے باہمت۔ غیور نوجوان نسل کی پرورش کا انتظام کریں۔ ”کالجز یورنیورسٹیز“ میں مروجہ تعلیم کے ساتھ” جدید فنی تعلیم“ کے نصاب کو پڑھایا جائے ۔ اپنی افرادی قوت کو کار آمد مہارت ۔ پیشہ وارانہ علوم کے حصول میں مدد فراہم کریں۔ ازاں بعد ”دوست ممالک“ میں نوجوانوں کو باعزت روزگار دلوانے کا ذِمہ حکومت خود اُٹھائے ۔
اِسی طرح ”مافیاز“ کے چنگل سے اپنے شہریوں کو محفوظ رکھنا ممکن ہوگا۔ انسانی اسمگلنگ کا بھی سدباب ہوگا یہ سب صرف حکومت وقت کے ہی عمل سے ممکن ہے۔ حکومت زیادہ با وسائل عمل کی قوت سے لیس اہلیت کی حامل ہوتی ہے۔ بس حکومت کو چاہیے کہ نوجوان نسل کو ہر قسم کی گمراہی ۔ ذلت سے محفوظ رکھنے کیلئے مفید‘ باعمل منصوبے شروع کرے۔ کوئی حرج نہیں ”شکست“ ہو گئی ۔ اگلی مرتبہ جیت لیں گے ۔ پر شکست پر شکست ۔ جیتنے کا نہ ارادہ نہ نیت تو قابل شرم امر ہے ۔”محسن نقوی صاحب“ جیسے قابل چیئرمین کی موجودگی کے باوجود۔ بڑی سرجری کی بات نہایت خوش آئند ہے۔ ایک بڑی شکست نے ”76 سالہ برتری“ کو مزید مضبوط کر دیا پر ”انڈیا“ سے ہار کچھ عرصہ سے یہ تو ہمیشہ ہارنے کیلئے میدان میں اُترتے آرہے ہیں۔ نہیں سُدھرتے تو بہتر ہوگا کہ کرکٹ پر پابندی لگا دیں فائدہ ہی نہیں ہر روز خواری سمیٹنے کا ۔ ”ٹیم“ تو صرف گپ شپ لگانے۔ تصویریں کھینچوانے ۔ کھابے کے مشن پر رہتی ہے۔