گزشتہ چند برسوں سے صوبہ بلوچستان میں افغانستان کے ساتھ معروف چمن بارڈر راہداری پر مظاہرین کی طرف سے برپا کیے جانے والے ہنگاموں و مظاہروں کے علاوہ سرحد پار سے افغان سیکورٹی فورسز کی اشتعال انگیزیوں میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب گزشتہ برس نگران حکومت کے دور میں اچانک پاکستان سے امریکی کرنسی تیزی کے ساتھ افغانستان منتقل ہونے لگی۔ پاکستان میں ڈالر نایاب ہوگیا اور سوشل میڈیا پر افغانیوں کی طرف سے ڈالر افغانستان سمگل کیے جانے کے علاوہ افغان سمگلروں کی پاکستان کےخلاف بدزبانی منظر عام پر آئی۔ بعض ویڈیوز میں انہیں پاکستانی کرنسی اور پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کی توہین کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ کچھ ویڈیوز ہیں بعض افغان پاک افغان سرحد پر لگی خار دار باڑ کو کانٹتے ہوئے دکھائے گئے۔ شاید اس طرح کی پاکستان مخالف ویڈیوز کو پاکستان کی نگران حکومت پروپیگنڈہ قراردے کر زیادہ اہمیت نہ دیتی لیکن براستہ پاک افغان بارڈر بلوچستان میں بڑھتے ہوئے دہشتگردی کے واقعات سمیت پاکستان میں کمزور ہوتی معیشت میں افغانیوں کا کردار سامنے آنے پر پاکستان کی نگران حکومت نے ایک تو پاکستان میں غیر قانونی طورپر مقیم افغانیوں کو پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا اور اس سلسلے میں حتمی تاریخ دیتے ہوئے مہلت بھی مقرر کردی۔ ساتھ ہی افغانیوں کے اپنے ملک سے آزادانہ پاکستان میں داخلے کو سفری دستاویزات کے ساتھ مشروط کردیا گیا۔ حالانکہ بارڈر مینجمنٹ کا قانون پہلے سے موجود تھا لیکن اس پر عمل درآمد میں پاکستان کی طرف سے نرمی کو افغانیوں نے پاکستان کی کمزوری سمجھتے ہوئے چمن بارڈر کو گھرکا صحن بنالیا۔ پاک افغان بارڈر پر پاکستان کی طرف سے نرمی 15اگست 2021ءکوطالبان کے کابل پر قبضے اور امریکی فوج کے وہاں سے انخلاءکے بعد عمل میں آئی۔ وجہ افغان طالبان کی دودہائیوں تک امریکی و نیٹو افواج کے خلاف اپنے ملک کی آزادی کیلئے مزاحمتی جنگ اور اس عرصہ میں پاکستان کی طرف سے افغان طالبان کے حق میں دی گئی بے بہا قربانیاں تھیں۔ جس میں پاک فوج اور پاکستانی عوام کی طرف سے 80ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی اور پاکستانی معیشت کو 150ارب ڈالر کا نقصان معمولی بات نہیں تھی۔اپنی انہی قربانیوں کی وجہ سے پاکستان کے عوام بھی مطمئن تھے کہ کابل پر طالبان کے قبضہ اور ان کی طرف سے عبوری حکومت کے قیام کے بعد افغان سرحد پاکستان کی سلامتی کے خلا ف مزید استعمال نہیں ہوگی۔ ویسے بھی پاکستان سویت افواج کے افغانستان پر قبضہ کے بعد سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر تا چلا آرہا تھا اور غیر ملکی ہونے کے باوجود افغانیوں کو پاکستان میں وہ تمام حقوق حاصل تھے جن پر صرف پاکستانیوں کا حق تھا۔ افغان مہاجرین جس بڑے پیمانے پر منشیات اور ناجائز ہتھیار اپنے ساتھ لے کر آئے اس کا خمیازہ آج تک پاکستانی معاشرہ بھگت رہا ہے۔ ان تمام مہربانیوں اور قربانیوں کا بدلہ افغانیوں اور افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت نے یہ دیا کہ ایک طرف پاکستان دشمن دہشت گردی کالعدم تنظیموں کی طرف سے پاکستان میں جدید امریکی اسلحہ کے ساتھ دہشت گردی میں اضافہ ہوگیا تو ساتھ ہی افغان سمگلروں نے بھی اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرتے ہوئے پاکستانی معیشت پر وار شروع کردیے۔جسکے پاکستانی معیشت برتیزی سے پڑنے والے اثرات پاکستان کیلئے برداشت سے باہر ہوگئے۔
اگر صرف سمگلنگ کی مد میں دیکھیں تو سامنے آنے والے حقائق کے مطابق پاکستان کو 23ارب ڈالرکا سالانہ نقصان برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ جبکہ پاکستان آئی ایم ایف سے چند ارب ڈالر قرض کے عوض پاکستانی عوام پر نہ جانے کتنے ٹیکس لگانے پر مجبور ہے۔ پاکستان نے افغان عبوری حکومت کو اعتماد میں لے کر پاکستان کی مخدوش معاشی صورت حال کے سبب افغانستان کے ساتھ ملحقہ سرحد پر خار دار باڑ کو مکمل کرنے کے علاوہ بارڈر کراسنگ پوائنٹس پر آزادانہ آمدورفت کو سفارتی قوانین کے ضابطوں میں لانے کیلئے سفری دستاویزات کی شرط ”ون ڈاکومنٹ رجیم“ کے ذریعے نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ دونوں برادر ہمسایہ ملکوں کے درمیان باہمی آمدورفت کیلئے سب سے زیادہ آسان شرط تھی جسے ملک کی مغربی سرحد پر دیگر بارڈر کراسنگ پوائنٹس کی طرح چمن بارڈر پر بھی لاگو کیاگیا تاکہ غیر قانونی طور پر آنے والوں کو روکنے کے علاوہ ہتھیاروں ،منشیات اور غیر قانونی سامان کی سمگلنگ کو بھی روکاجاسکے۔
اب اگر افغانستان کے ساتھ چمن اور طور خم بارڈر کراسنگ کا موازنہ کریں توطور خم کے بارڈرپر نہ تو افغانیوں کو مظاہرے کرنے کی ضرورت پڑی نہ ہی وہاں نوبت ہنگاموں تک پہنچی،بلکہ طورخم کے راستے آنے والے افغانیوں نے ون ڈاکومنٹ رجیم کے پاکستانی فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے سمگلنگ کو خیر باد کہا اور دیگر کاروباری ذرائع کی طرف منتقل ہوگئے۔ اس کے برعکس چمن کے بارڈر پر جہاں سے آنے والے افغانیوں کی تعداد طورخم کا بارڈر استعمال کرنے والوں سے نصف ہی نہیں بلکہ ایک چوتھا ئی ہے۔مگر چمن کا راستہ اختیار کرنے والے افغان باشندے پاکستان کی طر ف سے لاگو کیے گئے ون ڈاکومنٹ رجیم کو تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ چمن بارڈر کے پار تعینات افغان سیکورٹی فورسز کے لوگ بھی افغانیوں کو پاکستان کی طر ف سے لاگو کیے گئے قانون کے خلاف بھڑکانے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ حالانکہ پاکستانی حکام واضح کرچکے ہیں کہ ون ڈاکومنٹ ضابطہ تسلیم نہ کرنے والوں کو پاکستانی حدود میں داخلے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے باوجود ناجائز اسلحہ و منشیات سمگل کرنے والے گروہ اور ان کے بلوچستان میں سرپرست چند سیاستدان گزشتہ چھ ماہ سے چمن بارڈر پر افغانیوں کو اشتعال دلا کر ہنگاموں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ان کے اس رویے کی وجہ سے وہ افغان بھی متاثر ہورہے ہیں جو اپنی شناخت اور سفری دستاویزات کے ساتھ پاکستان میں آمدورفت اورکاروبار کا سلسلہ جاری رکھناچاہتے ہیں۔ جب کہ سرحد پار ان کے اپنے بھائی بند افغان سیکورٹی والے اور سمگلر مافیاز انہیں مجبور کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف مظاہروں اور ہنگاموں کا حصہ بنیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال چمن بارڈر پر پاکستانی حدود میں پاکستانی سمگلروں نے بھی پیدا کر رکھی ہے۔انہیں اور افغانیوں کو شاید اندازہ ہی نہیں کہ پاکستان کی حکومت اب چمن بارڈر استعمال کرنے والوں کو طے شدہ قانون سے ہٹ کر کسی بھی طرح کی رعایت دینے کو تیار نہیں۔وقت آگیا ہے کہ افغانستان اور چمن کے لوگ ہنگاموں کے ذریعے اپنا وقت برباد کرنے کی بجائے پاکستان کے ون ڈاکومنٹ رجیم کو تسلیم کرتے ہوئے قانون پسند شہری ہونے کا ثبوت دیں۔