تعلیم کے انڈسٹری بننے کے بعد خود پبلک یونیورسٹیز کیلئے بہت چیلنجز سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف وسائل کی کمی تو دوسری طرف پرائیوٹ یونیورسٹیوں کا دباﺅ۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ جہاں بھی کسی نیک نیت اور لائق انسان کو سربراہ ِ ادارہ یا سربراہ ِ شعبہ کی ذمہ داری ملی ہے اس نے حتی المقدور کوشش کی کہ ہے جتنی ممکن ہو بہتری لائی جائے۔ مجھے میری بہنوں جیسی محترم اور پاکستان کی ممتاز شاعرہ، ادیبہ، صحافی اور ٹی وی اینکر عائشہ مسعود کا فون آیا کہ فیکٹ فورم کا (جوکہ عائشہ مسعود اور ان کے رفقائے کار کی ادبی، ثقافتی اور صحافتی تنظیم ہے) ہزارہ یونیورسٹی کے زیر ِ اہتمام ایک روزہ ادبی کانفرنس کرانے کا ارادہ ہے جس کا عنوان علامہ اقبال کے ایک مصرعے پر رکھا گیا ہے
”جوانوں کو پیروں کا استاد کر“ جس میں سینئر سکالرز کے ساتھ نوجوان نسل کے مکالمے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ عائشہ مسعود نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ سرکاری ادبی اداروں کے زیر اہتمام کانفرنسوں، میلوں اور سیمینارز میں کئی برس سے مخصوص گروہ شرکت کر رہا ہے جس کی وجہ سے علوم وفنون کی ترویج اور فکری تربیت پر جمود طاری ہے اور بھارت اور بنگلہ دیش کی طرح سے ان شعبوں میں ترقی نہیں ہو رہی بلکہ سرکاری خرچ پر چند اشخاص ترقی کر رہے ہیں۔ ملک میں ادب کی ترویج و ترقی میں ادبی تنظیموں کو مثبت کردار ادا کرنا پڑیگا اور یہ کہ فیکٹ فورم پاکستان کے نامور لکھاریوں کے ساتھ مل کر یہی فریضہ سر انجام دینے نکلا ہے۔
یہ بہت خوش آئند تھا۔ میں نے پاکستان رائیٹرز یونین کے کارپردازان سے بات کی تو لاہور سے شفیق احمد خان ، کہوٹہ سے عبداللہ کمال جنجوعہ اور مطیع احمد مجتبیٰ اور اسلام آباد سے فیصل شہزاد اور ڈاکٹر ابرار عمر تیارہوگئے۔ ہم رات 12 بجے کے لگ بھگ مانسہرہ پہنچے۔ جب تک ہم یوبیورسٹی کے گیسٹ ہاوس تک پہنچ نہیں گئے صدر شعبہ اردو مہربان و مشفق پروفیسر ڈاکٹر الطاف یوسف زئی اور ڈاکٹر اخلاق احمد اعوان ہماری رہنمائی فرماتے رہے۔ ہم وہاں پہنچے تو استاد الاساتذہ پروفیسر ڈاکٹر نذر عابد اور ازور شیرازی بھی وہاں موجود تھے۔ ڈنر کے بعد دنیا جہان کے ادب پر اتنی گفتگو ہوئی کہ رات کے تین بج گئے۔ سو یہ سوچ کر محفل برخواست کی گئی کہ صبح ایک مصروف دن آنے والا ہے۔
صبح ہوئی تو اسلام آباد سے عائشہ مسعود کی قیادت میں فیکٹ فورم کی ٹیم بھی پہنچ گئی۔ ٹیم میں حسن عباس رضا، سلمان باسط، نسیم سحر، عکسی مفتی نرجس افتخار اور کرنل ریٹائرڈ خالد مصطفیٰ شامل تھے۔ اٹک سے پروفیسر ڈاکٹر عامر سہیل، سید ماجد شاہ، امتیازالحق امتیاز اور تاج الدین تاج بھی آن ملے یوں کانفرنس شخصیات کے لحاظ سے قومی کانفرنس میں بدل گئی۔
اس کانفرنس کی سب سے اہم بات یہ تھے کہ یہاں طلباءوطالبات کی کثیر تعداد بھی ہال میں موجود تھی اور آخر تک ایسے ہی رہی۔
ڈاکٹر اخلاق اعوان نے سٹیج سنبھال لیا وہ ایک ماہر سٹیج سیکریٹری اور کمپیئر ہیں۔ پروفیسر الطاف یوسف زئی اور پہلی نشست کے کلیدی خطبہ دینے والے عکسی مفتی کو سٹیج پر بلایا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی کرسی صدارت پر تشریف لے آئے اور قرا¿ت و نعت سے کانفرنس کے پہلے سیشن کا آ غاز ہو گیا جو کہ چالیس منٹ پر محیط تھا۔ ڈاکٹر اخلاق نے سب سے پہلے ڈاکٹر الطاف کو دعوت دی کہ وہ ہزارہ یونیورسٹی کے بارے میں گفتگو کریں اور پھر کانفرنس کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالیں۔ ڈاکٹر الطاف کے بعد عائشہ مسعود کو دعوت دی گئی جنہوں نے اپنی تنظیم فیکٹ فورم کا تعارف کروایا اور اس کے اغراض و مقاصد بتائے اور کرنل خالد مصطفیٰ کی بطور جنرل سیکریٹری ذمہ داریوں سے آگاہ کیا۔ عائشہ مسعود کی گفتگو کے بعد کانفرنس کے پہلے
سیشن کا آغاز ہوا جس میں عکسی مفتی نے ادب و ثقافت کے حوالے سے اہم گفتگو کی اور ”با با کی کہانی“ کے عنوان سے قائد اعظم کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو سمجھایا کہ مسلمانوں کے لئے الگ ملک کی ضرورت کیوں تھی۔ عکسی مفتی کے بعد وائس چانسلر ہزارہ یونیورسٹی نے خطاب کیا جس میں ادب و ثقافت اور علوم و فنون کے تاریخی پس منظر اور مستقبل کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی۔انھوں نے سٹیج پر بیٹھے مہمانوں کے علاو¿ہ خالد مصطفی اور دیگر مہمانوں کو اعزازی شیلڈز پیش کیں اور تالیوں کی گونج میں پہلا سیشن ختم ہوا۔ دوسرے سیشن کی نظامت عائشہ مسعود نے سنبھالی اور راقم الحروف کو کلیدی خطبہ کے لئے سٹیج پر دعوت دی۔ اس سیشن میں ڈاکٹر ابرار عمر اور یونیورسٹی کی طرف سے پروفیسر نزر عابد شامل تھے۔ سیشن میں میڈیا کے کردار پر گفتگو ہوئی جس میں یہ بات شامل تھی کہ نوجوانوں کو مستقبل میں میڈیا کی یلغار کا مقابلہ کرنے کی کتنی تیاری کرنا ہو گی۔ میڈیا کے معاشرے پر اثرات کے ساتھ کسی خبر کو دینے کی زمہ داریوں اور فیک نیوز کے برے اثرات پر بھی گفتگو ہوئی۔ اس سیشن میں قومی زبان اردو کی اہمیت پر بھی بات ہوئی کہ ٹی وی میں بات چیت کے دوران درست تلفظ کی کتنی اہمیت ہے جب کہ سکرین پر لکھی ہوئی لائنیں بھی بعض اوقات غلط اردو کے ساتھ چل رہی ہوتی ہیں۔ راقم الحروف نے سوشل میڈیا، ففتھ جنریشن وار اور پرسیپشن مینجمنٹ پر بات کی۔ میرے بعد ڈاکٹر ابرار عمر نے میڈیا کے زریعے پھیلائے جانے والے کنفیوژن اور دیگر کنٹرولز پر سیر حاصل گفتگو کی اور ذہن میں ابھرتے سوالوں کے جوابات دیتے ۔ پروفیسر نزر عابد نے بھی ادیب کی ذمہ داری کے حوالے سے بصیرت افروز مقالہ پڑھا۔ یوں یہ دوسرا سیشن بھی اختتام کو پہنچا تیسرا سیشن نرجس افتخار کی کتاب ”خطبات اقبال ایک مطالعہ“ پر تفہیم و تجزیہ کا سیشن تھا۔ خالد مصطفی نے تیسرے سیشن کا آغاز کیا اور پروفیسر نرجس افتخار سمیت لاہور سے تشریف لائے پروفیسر شفیق احمد خان اور پروفیسر سلمان باسط کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی۔ سب سے پہلے پروفیسر نرجس افتخار نے اپنی کتاب کا تعارف پیش کیا۔ ان کے بعد پروفیسر سلمان باسط اور پروفیسر شفیق احمد خان نے گفتگو کی۔ اس سیشن کے بعد لنچ کا وقفہ ہوا اور لنچ کے بعد آخری سیشن یعنی مشاعرے کا آغاز ہوا۔ شاعروں کی تعداد اگرچہ کم تھی لیکن ہر ایک شاعر نے نہایت معیاری کلام سنایا۔ حیرت اور خوشی کی بات تھی کہ کانفرنس کے آخر تک نہ طلبا طالبات کی تعداد کم ہوئی نہ نوجوانوں کی دلچسپی کم ہوئی۔
اس لحاظ سے ہزارہ یونیورسٹی مبارک باد کی مستحق ٹھہری کہ انہوں نے روٹین سے ہٹ کے نہایت ضروری اور پریکٹیکل موضوعات پر کانفرنس منعقد کی جس میں نہ صرف سپیکرز کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا بلکہ سٹوڈنٹس کو حقیقی اور خالص ایسی علمی باتوں سے آگاہی کا موقع فراہم کیا جو کتابوں میں میسر نہیں۔