انسؓ ایک پالان پر حج کے لیے تشریف لے گئے اور آپ بخیل نہیں تھے۔ آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم ؐ بھی پالان پر حج کے لیے تشریف لے گئے تھے، اسی پر آپ کا اسباب بھی لدا ہوا تھا۔ براء بن عازب ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ آج (عید الاضحی کے دن) کی ابتداء ہم نماز (عید) سے کریں گے پھر واپس آ کر قربانی کریں گے جو اس طرح کرے گا وہ ہماری سنت کے مطابق کرے گا لیکن جو شخص (نماز عید سے) پہلے ذبح کرے گا تو اس کی حیثیت صرف گوشت کی ہوگی جو اس نے اپنے گھر والوں کے لیے تیار کرلیا ہے قربانی وہ قطعاً بھی نہیں۔ اس پر ابوبردہ بن نیار ؓ کھڑے ہوئے انہوں نے (نماز عید سے پہلے ہی) ذبح کرلیا تھا اور عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا بکرا ہے (کیا اس کی دوبارہ قربانی اب نماز کے بعد کرلوں؟ ) نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ اس کی قربانی کرلو لیکن تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ مطرف نے عامر سے بیان کیا اور ان سے براء بن عازب ؓ نے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہو گی اور اس نے مسلمانوں کی سنت کے مطابق عمل کیا ۔
انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ جس نے نماز عید سے پہلے قربانی کرلی اس نے اپنی ذات کے لیے جانور ذبح کیا اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس کی قربانی پوری ہوئی۔ اس نے مسلمانوں کی سنت کو پا لیا۔عقبہ بن عامر جہنی ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ؐ نے اپنے صحابہ میں قربانی کے جانور تقسیم کئے۔ عقبہؓ کے حصہ میں ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ آیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے حصہ میں تو ایک سال سے کم کا بچہ آیا ہے؟ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ تم اسی کی قربانی کر لو۔
انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ؐ نے قربانی کے دن فرمایا کہ جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کرلی ہے وہ دوبارہ قربانی کرے اس پر ایک صاحب نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ وہ دن ہے جس میں گوشت کھانے کی خواہش ہوتی ہے پھر انہوں نے اپنے پڑوسیوں کا ذکر کیا اور (کہا کہ) میرے پاس ایک سال سے کم کا بکری کا بچہ ہے جس کا گوشت دو بکریوں کے گوشت سے بہتر ہے تو نبی کریم ؐ نے انہیں اس کی اجازت دے دی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ اجازت دوسروں کو بھی ہے یا نہیں۔ پھر نبی کریمؐ دو مینڈھوں کی طرف مڑے اور انہیں ذبح کیا پھر لوگ بکریوں کی طرف بڑھے اور انہیں تقسیم کر کے (ذبح کیا)۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ زمانہ پھر کر اسی حالت پر آگیا ہے جس حالت پر اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین پیدا کئے تھے۔ سال بارہ مہینہ کا ہوتا ہے ان میں چار حرمت کے مہینے ہیں، تین پے در پے ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک مضر کا رجب جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا) یہ کون سا مہینہ ہے، ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ؐ خاموش ہوگئے۔ ہم نے سمجھا کہ شاید نبی کریم ؐ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپؐ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا ذی الحجہ ہی ہے۔ پھر فرمایا یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس کا زیادہ علم ہے۔ پھر نبی کریم ؐ خاموش ہوگئے اور ہم نے سمجھا کہ شاید آپ اس کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ ؐ نے فرمایا کیا یہ بلدہ (مکہ مکرمہ) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں۔ پھر آپ ؐ نے دریافت فرمایا یہ دن کون سا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو اس کا بہتر علم ہے۔ نبی کریم ؐ خاموش ہوگئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گے لیکن آپؐ نے فرمایا کیا یہ قربانی کا دن (یوم النحر) نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں! پھر آپ ؐ نے فرمایا پس تمہارا خون، تمہارے اموال۔ محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ (ابن ابی بکرہ نے) یہ بھی کہا کہ اور تمہاری عزت تم پر (ایک کی دوسرے پر) اس طرح باحرمت ہیں جس طرح اس دن کی حرمت تمہارے اس شہر میں اور اس مہینہ میں ہے اور عنقریب اپنے رب سے ملو گے اس وقت وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کرے گا آ گاہ ہوجاؤ میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ تم میں سے بعض بعض دوسرے کی گردن مارنے لگے۔ ہاں جو یہاں موجود ہیں وہ (میرا یہ پیغام) غیر موجود لوگوں کو پہنچا دیں۔ ممکن ہے کہ بعض وہ جنہیں یہ پیغام پہنچایا جائے بعض ان سے زیادہ اسے محفوظ رنے والے ہوں جو اسے سن رہے ہیں۔ اس پر محمد بن سیرین کہا کرتے تھے کہ نبی کریم ؐ نے سچ فرمایا۔ پھر نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ آگاہ ہوجاؤ کیا میں نے (اس کا پیغام تم کو) پہنچا دیا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ کیا میں نے پہنچا دیا ہے؟
عبداللہ بن عمر ؐ قربان گاہ میں نحر کیا کرتے تھے اور عبیداللہ نے بیان کیا کہ مراد وہ جگہ ہے جہاں نبی کریمؐ قربانی کرتے تھے۔ عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک ؓ سے سنا کہ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم ؐ دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا تھا۔ عقبہ بن عامر ؓ نے کہ نبی کریم ؐ نے اپنے صحابہ میں تقسیم کرنے کے لیے آپ کو کچھ قربانی کی بکریاں دیں انہوں نے انہیں تقسیم کیا پھر ایک سال سے کم کا ایک بچہ بچ گیا تو انہوں نے نبی کریم ؐ سے اس کا تذکرہ کیا۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا کہ اس کی قربانی تم کر لو۔ براء بن عازب ؓ نے، انہوں نے بیان کیا کہ میرے ماموں ابوبردہ ؓ نے عید کی نماز سے پہلے ہی قربانی کرلی تھی۔ نبی کریم ؐ نے ان سے فرمایا کہ تمہاری بکری صرف گوشت کی بکری ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا ایک بکری کا بچہ ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ تم اسے ہی ذبح کرلو لیکن تمہارے بعد (اس کی قربانی) کسی اور کے لیے جائز نہیں ہوگی پھر فرمایا جو شخص نماز عید سے پہلے قربانی کرلیتا ہے وہ صرف اپنے کھانے کو جانور ذبح کرتا ہے اور جو عید کی نماز کے بعد قربانی کرے اس کی قربانی پوری ہوتی ہے اور وہ مسلمانوں کی سنت کو پا لیتا ہے۔ اس روایت کی متابعت عبیدہ نے شعبی اور ابراہیم نے کی اور اس کی متابعت وکیع نے کی، ان سے حریث نے اور ان سے شعبی نے (بیان کیا) اور عاصم اور داؤد نے شعبی سے بیان کیا کہ میرے پاس ایک دودھ پیتی پٹھیا ہے۔ اور زبید اور فراس نے شعبی سے بیان کیا کہ میرے پاس ایک سال سے کم عمر کا بچہ ہے۔ اور ابوالاحوص نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا کہ ایک سال سے کم کی پٹھیا۔ اور ابن العون نے بیان کیا کہ ایک سال سے کم عمر کی دودھ پیتی پٹھیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین