لاہور (خبر نگار) چیف جسٹس ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان نے اے ٹی سی کورٹ سرگودھا کے باہر فائرنگ کے واقعہ پر از خود نوٹس کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ سرگودھا کے راستے کیوں بند کئے گئے؟۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ سیریس تھریٹس کی وجہ سے راستے بند کئے گئے۔ تھریٹس پر تحقیقات شروع کردی گئی ہیں، عدالت نے آئی جی سے کہا کس بندے نے جج سے ملنے کی خواہش کی یہ سوال ہے، آپ لوگوں کو عدالتوں میں جانے سے روک کر کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، آپ کس قانون کے تحت وکلاء اور سائلین کو عدالت جانے سے روک سکتے ہیں؟۔ آئین میں دیئے گئے بنیادی حقوق کیسے سلب کئے جا سکتے ہیں۔ بہانے بنانے ہیں تو عدالتیں بند کر دیں۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ لوگوں کی زندگیاں بچانے کیلئے راستے بند کئے۔ عدالت نے کہا آپ سے پوچھا ہے کہ کس قانون کے تحت عدالتوں میں پیشی سے روک سکتے ہیں؟۔ اس کا مطلب ہے کہ جدھر آپ کی مرضی ہوگی آپ تھریٹس لگا دیں گے۔ ابھی تک آپ نے کتنی گرفتاریاں کی ہیں؟ جج صاحب کے گھر پر بجلی میٹر توڑنے پر کیا کارروائی کی؟۔ لگتا ہے آئی جی صاحب آپ کے بس کی بات نہیں، میں آرڈر بھی لکھ دوں گا، کتنے کام عدالتی احکامات پر کرتے ہیں؟۔ اس کیس میں آپ کو کیوں عدالتی حکم کی اتنی ضرورت ہے؟۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ جیو فینسنگ کی اجازت ملتے ہی کارروائی شروع کر دیں گے۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مداخلت سے روکتے ہوئے کہا ڈی پی او بتائیں کیوں راستے بند کرنا ضروری تھے؟۔ جیل وین میں بیٹھے لوگوں سے کونسے تھریٹس لاحق تھے؟ ایک تھریٹ پر آپ لوگوں کے آئینی حقوق ختم نہیں کر سکتے، عدالت نے آئی جی پنجاب کی بار بار مداخلت پر سرزنش کرتے ہوئے کہا آپ کو کہا ہے آپ خاموش رہیں، اداروں کا کام لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے عدالتوں میں جانے سے روکنا نہیں، آپ بتائیں کس سیاسی جماعت کی کال پر وہاں ہجوم تھا، جج صاحب نے لکھا ہے انہیں کام کرنے سے روکا گیا، یہ غلط فہمی ہے کہ ڈر کر عدالتیں بند کر دی جائیں گی، اس طرح تو پورا ملک ریڈ الرٹ پر ہے بند کر دیں ملک کو بھی، ڈی پی او سرگودھا کئے گئے اقدامات بارے چیف جسٹس کو قائل نہیں کر سکے۔