لاہور(خصوصی نامہ نگار+ این این آئی)سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا ہے کہ ہتک عزت بل پر دستخط کرنے پر کوئی پچھتاوا نہیں، بطور اسپیکر جو بل اپنے دستخطوں سے گورنر کو بھجوایا اسے قائمقام گورنر کیسے روک سکتا ہوں ، آج جو لوگ ہتک عزت بل پر بات کر رہے ہیں ان میں 99فیصد لوگوںنے یہ قانون پڑھا ہی نہیں ہے ، کوئی جج ایک خط لکھ دے تو اس پر شور مچ جاتا ہے لیکن کوئی جسٹس شوکت صدیقی اپنے سر پر خطوط کا پلندہ اٹھا کر جائے تو اس کی بات نہ سنی جائے تو یہ ایک حادثہ ہے ، حکومت شعوری طور پر گندم خریداری کے معاملات سے باہر نکلنے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ پنجاب اسمبلی کے احاطے میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر ملک محمد احمد خان نے کہا کہ یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ شور شرابہ ،گالی ،بہتان ،الزام ،ایوان کو یر غمال بنانا اور بجٹ کی کاپیاں پھاڑنا یہ احتجاج کی ایک شکل ہے جس سے آپ رجسٹرڈ ہو جاتے ہیں ، میں کسی ایک کو اس کا مورد الزام نہیں ٹھہراتا بلکہ سب نے بقدرجسہ اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے ،میں نے بھی اس میں حصہ ڈالا ہے اور اسی طرح احتجاج کیا ہے ۔ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ کا یہ حادثہ ہے کہ جو اپوزیشن میں بیٹھے ہیں انہوںنے بجٹ پرتنقید کرنی ہے کہ یہ عوام دشمن بجٹ ہے اس میں ٹیکسز کی بھرمار ہے سب چیزیں غلط ہیں او ر جو حکومت کی طر ف بنچوں پر بیٹھے ہیں انہوں نے بجٹ کی تعریف کرنی ہے ۔وہ پارلیمنٹ اوراسمبلیاں جہاں پر بجٹ کو سنا جانا تھا وہاں پر شور شرابے کی پریکٹس شروع ہو گئی ہے، اس اقدام کی بدولت لوگوں کا جو پارلیمنٹ اوراسمبلیوں پر اعتماد میں ہے اس کمی آتی جائے گی ۔انہوںنے کہا کہ میں واضح طور پر دو ٹوک بات کہتا ہوں کہ غربت میں کمی کرنا ہو گی ، اصلاحات کی طرف جانا ہوگا اور اس کے ساتھ عوام کا خیال رکھنا ہے اور شہباز شریف بطور وزیر اعظم احسن طریقے سے ان مقاصد کو حاصل کر رہے ہیں۔انہوںنے ہتک عزت بل پر دستخط کے حوالے سے کہا کہ میں نے اس قانون کو ایک نہیں بلکہ دو سے تین بار شق وار بڑے غور سے پڑھا ہے ،اس میں آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کی جو بات کی جارہی ہیں وہ قطعی طور پر درست نہیں ہے ، قانون کا کوئی بھی نقطہ آئین و قانون سے متصادم نہیں ۔انہوںنے کہا کہ جس بل پر میں نے بطور اسپیکر دستخط کئے ہیں اور اسے گورنر کے پاس بھیجا ہے ، بطور قائمقام گورنر کوئی جواز نہیں کہ میں اسے روک دوں ۔انہوں نے گندم خریداری کے حوالے کہا کہ حکومت شعوری طور پر فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ گندم خریداری کے معاملے سے خود کو باہر نکالے گی،میری بطور کسان ایک رائے تھی اور آج بھی ہے لیکن وہ عوام الناس جو کسان نہیں ہیںان سے جو فیڈ بیک آرہا ہے انہیںآٹا اور گندم سستی مل رہی ہے ۔حکومت کسان کو سپورٹ دینے کے لئے ایک سبسڈائزڈ ماڈل دے رہی ہے جس میں ٹریکٹرز، کھادوں، بیجوں اور بجلی کی قیمت میں ریلیف دینے کی بات ہو رہی ہے ، اگر حکومت اس طرح تحفظ دیتی ہے تو کسان کا بوجھ کم ہوگا اور یہ اقدام زرعی سائیکل کو متحرک کر دے گا اوراگر سپورٹ نہ کر پائے تو اس میں مشکل آئے گی۔