بجلی،گیس،پٹرول کی قیمتوں سے پریشان شہری راشن میں کٹوتی پر مجبور

 لیاقت بلوچ
 وفاقی حکومت کے 18800 ارب روپے سے زائد کا اگلے مالی سال کا بجٹ پیش کردیا۔ مالی سال 2024-25کیلئے یہ بجٹ 8ہزار500ارب روپے کے خسارے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق یہ بجٹ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کے 6اعشارہ9 فیصد خسارے پر مشتمل ہے۔ اِس تاریخ ساز مالیاتی خسارے کے حامل بجٹ میں آدھی رقم (یعنی 9775 ارب روپے) قرضوں اور سْود کی ادائیگی کے لیے مختص کی گئی ہے، جوکہ بجٹ اخراجات میں سب سے بڑی رقم ہے۔ یہ رقم دفاعی اخراجات کے لیے مختص کردہ رقم (2122 ارب روپے) سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ اس طرح وفاقی حکومت کے 18000 ارب روپے سے زائد کے بجٹ میں سے آدھی  سے بھی زائد رقم سود اور قرض کی ادائیگی میں چلی جائے گی۔ جبکہ وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 1400 ارب روپے مختص کیے گئے  ہیں۔  وفاقی حکومت ا یف بی آر کے ذریعے 12970 ارب روپے جمع کرے گی لیکن اس میں سے 7438 ارب روپے صوبوں کو دیئے جائیں گے۔
بجٹ میں موبائل فونز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی 60 سے بڑھاکر 80 فیصد، پراپرٹی کی خرید و فروخت پر 15 تا 45 فیصد ٹیکس، ادویات، چینی، دودھ اور اس سے بنی مصنوعات، برانڈڈ اسٹور، پولٹری فیڈ، کاغذ، سیمنٹ، کمپیوٹر، اسٹیشنری اور ٹیکسٹائل مصنوعات پر ٹیکسز میں اضافہ سمیت  تانبہ، کوئلہ، پلاسٹک سکریپ پر وِدہولڈنگ ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس طرح کل 38 کھرب روپے کے اضافی ٹیکسزکے ذریعے عوام کو مہنگائی کے نئے سونامی کی طرف دھکیلا جائے گا۔ رئیل اسٹیٹ کا شعبہ پہلے ہی تباہی کے دہانے پر ہے، ٹرانزیکشنز نہ ہونے کے برابر ہیں، اب مزید ٹیکسز سے یہ شعبہ عملاً مفلوج ہوکر رہ جائے گا۔ ٹیکسوں کا بڑا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالا گیا ہے۔ جبکہ حکومتی اخراجات میں'کفایت شعاری' کے اقدامات کے حوالے سے بجٹ میں کوئی تجویز پیش نہیں کی گئی۔ حکومت تنخواہوں سے  انکم ٹیکس کٹوتی کے علاوہ یوٹیلٹی بلوں کے ذریعے بھی انکم ٹیکس وصول کرتی ہے۔ نان ٹیکس محصولات کو ملا کر وفاقی حکومت کی آمدن 9119 ارب روپے ہوگی اس لیے خسارہ پورا کرنے کیلئے قرضوں، نجکاری اور بیرون ملک سے ملنے والی امداد پر انحصار کیا جائے گا۔  حکومت آئی ایم ایف کیساتھ 6 تا 8 ارب ڈالر کے 24 ویں قرض پروگرام میں بھی جانا چاہتی ہے، جس سے عام آدمی کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
آئی ایم ایف کیساتھ کیے گئے اب تک کے پروگراموں میں سے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے پروگرام کے لیے ابھی جائزہ اجلاس بھی نہیں ہوا ‘ اور اِسی بناء  پر سٹاف لیول معاہدہ بھی نہیں ہوسکا۔ حالات وواقعات کے پیش نظر ممکن نظر نہیں آرہا کہ عالمی مالیاتی ادارہ  رواں سال نئے پروگرام کے لیے مذکرات مکمل کرپائے گا۔ دوست ممالک ‘ورلڈ بنک‘ایشیائی ترقیاتی بنک سمیت قرض فراہم کرنے والے دیگر ادارے نئے قرضوں کو آئی ایم ایف کے پروگرام سے مشروط کرچکے ہیں۔ امسال  جون میں ختم ہونے والے 23 ویں پروگرام سے قبل دوست ممالک اور مالیاتی اداروں نے قرض یا کسی بھی قسم کی مدد کو آئی ایم ایف کے پروگرام سے مشروط کیا ہے۔
اگلے مالی سال میں ایف بی آر محصولات کا تخمینہ 12970 ارب روپے ہے جو رواں مالی سال سے 38 فیصد زیادہ ہے۔ معاشی ترقی کی شرح 3.6 فیصد رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے، لیکن عملاً یہ ہدف گزشتہ سال کی طرح حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔  جبکہ افراط زر یعنی مہنگائی کی شرح 12 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے 839 ارب روپے مختص کرنے جبکہ پینشن کے اخراجات کے لیے 1014 ارب مختص کرنے کی تجویز ہے۔ بجلی و گیس اور دیگر شعبوں میں سبسڈی کے لیے 1363 ارب روپے مختص کیے جا رہے ہیں۔ ٹیکس محصولات میں اضافے کے لیے کوئی جدید اقدامات متعارف نہیں کروائے گئے جس سے وسائل کو پاکستان کی معاشی ترقی کی جانب موڑا جاسکتا تھا۔ زرعی آمدن پر کوئی ٹیکس نہیں، جبکہ الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ تنخواہ دار اور چھوٹے کاروباری طبقے پر ڈال دیا گیا ہے.
توقع تھی کہ حکومت آمدنی بڑھانے کے لیے انقلابی اقدامات کرے گی اور تنخواہ داروں اور عام شہریوں کو ٹیکسوں میں ریلیف ملے گا مگر اس کے برعکس 50 ہزار1سو روپے ماہانہ تنخواہ والوں پر اڑھائی ہزار روپے کا ظالمانہ ٹیکس  نافذ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔  ملک  میں روپے کی قدرامریکی ڈالر  سے کہیں کم ہو چکی  ہے۔ ایسے میں ایک لاکھ سے نیچے ماہانہ تنخواہ کو ٹیکس نیٹ میں لانا تنخواہ دار طبقے کیساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 20 تا  25 فیصد اضافہ اور کم سے کم ماہانہ آمدن بڑھاکر 36 ہزار روپے کردی گئی ہے اس پر عملدرآمد تو کیا ہوگا، ہوشربا مہنگائی  میں مسلسل ا ضافے کے باعث اس ریلیف کا عوام کو عملاً کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
بجلی ‘گیس ‘اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل کئی سو فیصد اضافہ کے باعث عام شہری پہلے ہی اِن ڈائریکٹ ٹیکسیشن کی مد میں ہر چیز پر ایک ہی ٹیکس کئی کئی بار ادا کرتا ہے۔ فی کس آمدنی‘کرنسی کی قدر اور شرح نمو کے اعتبار سے ہم پہلے ہی دنیا کے بدترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ طویل عرصے سے گروتھ نہ ہونے کی وجہ سے ہماری معیشت ’’ڈی فلیشن‘‘ کا شکار ہے، قوت خرید کی کمی کی وجہ سے اشیاء و خدمات کی ڈیمانڈ ختم ہوگئی ہے، ایسے میں آپ مہنگائی میں کمی کے جتنے مرضی ڈھول پیٹتے رہیں اس سے حقائق تبدیل نہیں ہونگے۔ بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے شہری اپنے ماہانہ راشن کے بلو ں میں کٹوتیوں پر مجبور ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں وائٹ کالر ملازمت پیشہ اور چھوٹے کاروباری طبقات مل کر مڈل کلاس قائم کرتے ہیں، جوکہ ملکی معیشت کے لیے بفرزون کا کام کرتی ہے۔ مگر ہم نے مڈل کلاس کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ اب ملک میں صرف دوطبقات ہی بچے ہیں امیر اور غریب، مڈل کلاس کا تصور ہی پاکستان میں عملاً ختم ہوچکا ہے۔  مارکیٹ میں اشیائے خورد و نوش اور اشیائے ضروریہ کی آسمان کو چھوتی قیمتیں، ہر قسم کے کاروبار کی مندی مہنگائی کی داستانِ ہوشربا  چیخ چیخ کر سْنارہی  ہے۔پہلے سے جمود کے شکار معیشت پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ملک پہلے ہی برین ڈرین کا شکار ہے، موجودہ بجٹ تجاویز پر عملدرآمد سے چھوٹے کاروباری حضرات اور ہنرمند افراد ملک سے باہر سرمایہ کاری اور ملازمت کو ترجیح دیں گے، اور اس طرح ملک میں صرف وہی لوگ رہ جائیں گے جن کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔
آئی ٹی کے شعبے کے لئے 26 ارب روپے کی توقع کی  جارہی تھی تاہم 16 ارب روپے ایک دہائی پرانے منصوبے، ٹیک پارکس اور 10 ارب روپے  پی ایس ای بی اور این اے وی ٹی سی سی (دونوں سرکاری اداروں) کے حوالے سے ہنر مندی اور مارکیٹنگ کے لیے کوریا سے لیے گئے قرضے ہیں۔ اسی طرح آٹو انڈسٹری گزشتہ اڑھائی سال سے تنزلی کا شکار ہے، صنعت کی ترقی صرف 1.25 فیصد پر رْک گئی ہے۔ ماحول دوست اور عوام ک جیبوں پر ہلکے ہائبرڈ و الیکٹرک گاڑیاں مزید مہنگی کرنے کی تجویز  ایک اور عوام دشمن فیصلہ ہے۔ ہم نے آئندہ تین  سالوں میں کم و بیش 75 ارب ڈالر قرضوں اور سْود کی مد میں ادائیگی کرنی ہے، جس میں سے 22 ارب ڈالر سے زائد رقم امسال ادا کرنی ہے، جبکہ اس وقت ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر بمشکل 9 ارب ڈالر ہیں اور وہ بھی چین، سعودی عرب، یو اے ای جیسے دوست ممالک کی بطور امانت رکھوائی گئی رقوم  ہیں،  ورنہ قومی خزانے میں حکومت کی ذاتی آمدن کا تو کوئی پیسہ نہیں ہے۔ ایسے میں اگر ہم نے زرمبادلہ کے ذخائر، مقامی پیداوار اور لوکلائزیشن آف انڈسٹری پر توجہ نہ دی تو اگلے چند مہینوں میں ہم ایک بار پھر  خدانخواستہ معاشی بحران میں مبتلا ہوکرآخری حد پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔
اسی طرح نان فائلرزکے بیرون ملک جانے پر پابندی، موبائل فون سم بلاک کرنا اوربجلی کے کنکشن کاٹنے کی باتیں مہنگائی کے دلدل تلے دبی عوام میں مزید مایوسی پھیلانے اور  بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری سے روکنے کا سبب بنیں گے۔ کرپشن، ٹیکسوں کا مسلسل بڑھتا ہوا دباؤ، بغیرمقدمات یا جھوٹے مقدمات میں گرفتاریاں، صحافت پر قدغنیں آزادی اظہار رائے، شخصی آزدیوں اور سب سے بڑھ کر سیکورٹی ایشوز کی وجہ سے ملکی و غیرملکی سرمایہ کار پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہورہے ہیں۔
ان سب خرابیوں کے سد باب کیلئے حکومتوں کو اپنے اور افسرشاہی کے شاہانہ اخراجات ، ختم کرنے ہوں گے، پروٹوکول کلچر کا خاتمہ، افسر شاہی کے محلات، پروٹوکول گاڑیوں کے کانوائے اور جہازبھر بھر کر غیرملکی دوروں پر  جانے پر  پابندی عائد کی جائے۔  ہمیں بے لگام عیاشی پر مبنی اِس شاہانہ کلچر کو اب لگام دینا ہوگا، تب ہی ہم اس قابل ہونگے کہ باوقار، خوددار اور خودانحصار ترقی یافتہ اقوام کی صف میں اپنے آپ کو لاکھڑا کرسکیں. وما علینا الا البلاغگرام اخری ثابت ہو۔

ای پیپر دی نیشن