موجودہ طبلِ جنگ کا حقیقت پسندانہ جائزہ

Mar 14, 2009

اکرام اللہ
مجھے 23 مارچ 1940ء کا تاریخ ساز دن اچھی طرح یاد ہے جب لاہور کے منٹوپارک میں بادشاہی مسجد کے فلک بوس میناروں کی اوٹ میں اور عہد مغلیہ کے دور میں سرزمین ہند پر اسلام کی عظمت و انصاف کی یادگار لاہور کے عظیم قلعہ کی فصیلوں کے سائے میں مسلمانان ہندوستان کے نمائندوں نے قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی قیادت میں پاکستان کا مطالبہ کیا تھا۔ یکم مارچ 1940ء کے روز اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کی گراؤنڈ میں قائداعظمؒ کا وہ اعلان آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے ’’لیڈیز اینڈ جینٹل مین‘ Today is the first of March. Let us march on\\\" (خواتین و حضرات آج یکم مارچ کا دن ہے۔ آئیں ہم سب ایک پُرعزم قوم کی طرح اپنے روشن مستقبل کی طرف آگے بڑھیں) 7 سال کے اندر قوم کے بے مثال عزم اور قائداعظمؒ کی تاریخ ساز قیادت کی بدولت دنیا کے جغرافیئے میں ایک نظریاتی اسلامی مملکت کے ظہور کا معجزہ رونما ہوا۔ آج 14 مارچ 2009ء ہے۔ پورے 61 برس گزر جانے کے بعد ہم روحِ اقبالؒ اور روحِ قائداعظمؒ کے سامنے شرمندہ و شرمسار ہیں کہ حصول آزادی کے بعد ہم نہ صرف نظریہ پاکستان کی حفاظت کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ اپنی شامتِ اعمال کے باعث آدھا ملک گنوانے کے بعد اپنے دشمنوں سے ایسے ذلت آمیز طعنے سننے کے بعد کہ ’’جناح کے پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا ہے‘‘ ہم نے یعنی پوری قوم نے بشمول تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور سویلین لبادے یا وردی میں ملبوس ارباب اقتدار نے اپنے ماضی کی ناکامیوں اور قوم کی شکست و ریخت سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ بھارت سے تین جنگیں لڑی گئیں‘ چار بار طویل مارشل لاء کے عذاب کی اذیت ناک صورت احوال کے باوجود پاکستان کی قیادت ٹس سے مس نہیں ہوئی جس کا منہ بولتا المناک ثبوت یہ ہے کہ میثاق جمہوریت کے ہزار دعوؤں کے باوجود 18 فروری 2008ء کے تاریخ ساز قومی انتخابات کے بعد جس کے نتائج کو تمام سیاسی جماعتوں نے خوشدلی سے نہ صرف قبول کیا بلکہ قومی مصالحت اور قومی یگانگت کے جذبات سے سرشار تمام سیاسی جماعتوں نے ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے قوم کو ایک غیریقینی بحرانی کیفیت سے نکال کر تعمیروترقی و ملت کو اولین ترجیح دیتے ہوئے اقتدار باہمی شرکت کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ یہ ایک قومی دھارے میں مثبت اور نیک شگون تھا لیکن نہ جانے کس کی نظر لگ گئی کہ آج پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی سنگین نوعیت کے چیلنجز کے باوجود پاکستان کی سیاسی قیادت تاریخ کے موجودہ دوراہے پر ٹکراؤ کے انتہائی خطرناک راستے پر گامزن ہے۔
پاکستان کے اُفق پر منڈلاتے ہوئے سیاہ بادلوں کے طوفانوں کے باوجود انجام سے بے نیاز ملک بھر میں ایک ایسی لانگ مارچ کی احتجاجی تحریک کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کے ہراول دستوں کا کردار اگرچہ وکلاء ادا کر رہے ہیں لیکن یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ حزب مخالف کی تمام سیاسی جماعتیں دامے درمے سخنے اپنے تمام وسائل کے ساتھ وکلاء کی لانگ مارچ اور اسلام آباد میں دھرنا دینے کا طبلِ جنگ بجا چکی ہیں اور چونکہ ’’جنگ اور محبت‘‘ میں تمام ہتھکنڈے اور ہتھیار جائز سمجھے جاتے ہیں لہٰذا وکلاء تحریک کو عوامی تاریخ کا رنگ بھرنے کیلئے ہر جوش و خروش کا عوامی ٹمپریچر بڑھانے کیلئے سیاسی سلوگن کی تپش کا چٹخارا پاکستان کے سیاسی کلچر کا ایک ناگزیر حصہ بن چکا ہے۔ چنانچہ سیاسی ہجوم کے جذبات کے شعلوں کو بھڑکانے کیلئے بعض سیاستدانوں اور شعلے برسانے والے وکلاء قائدین نظم و ضبط‘ اخلاقیات‘ شائستگی اور شرافت کا دامن چھوڑ ایسے نعرے بھی بلند کر دیتے ہیں جن سے سول نافرمانی اور علم بغاوت بلند کرنے کی ترغیب کا پہلو نکل سکتا ہے لیکن مخالف کیمپ کو دل بڑا کرکے اور نازک حالات میں صبروبرداشت کا مظاہرہ کرتے ہوئے موجودہ بحرانی حالات میں ایسے معاملات کو زیادہ سنجیدگی سے نہ دیتے ہوئے درگزر سے کام لینا چاہئے۔ گذشتہ 48 گھنٹوں کے دوران جبکہ کراچی اور کوئٹہ سے مقامی وکلاء اور مقامی سیاسی کارکنوں کی کثیر تعداد نے لانگ مارچ کی مقررہ تاریخ پر یعنی 12 مارچ کی صبح ابتداء کر دی ہے اور حکومت نے اپنی اعلان کردہ پالیسی کے تحت دفعہ 144 نافذ کرکے مزاحمت کی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ معاملات اگرچہ کئی صورت کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن ملک بھر میں ابھی تک احتجاج بالعموم اجتماعی طور پر پُرامن ہے۔ کراچی سے روانہ ہونے والا لانگ مارچ شہر سے باہر حیدرآباد روڈ پر رواں دواں ہونے سے قبل ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے روک دیا۔ کچھ گرفتاریاں عمل میں آئیں لیکن مجموعی صورتحال نے کسی خطرہ کی ریڈلائن کو کراس نہیں کیا جس کی وجہ سے رینجرز وغیرہ طلب کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہو۔ اسی طرح کوئٹہ سے آنیوالی وکلاء کی ریلی جس کی قیادت سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر علی احمد کرد کر رہے تھے‘ اس کو بھی صوبہ سندھ کی حدود میں داخل ہوتے وقت قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے ر وکا اور کچھ عرصہ سڑک پر دھرنا دینے کے بعد یہ قافلہ بھی دفعہ 144 کے باعث چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر سکھر کی طرف روانہ ہو گیا اور خطرہ کی کوئی ریڈلائن امن و امان میں ناجائز دخل اندازی کا باعث نہیں بنی۔ ابتدائی دو دنوں میں چاروں صوبوں میں کسی جگہ بھی امن و امان کی مجموعی حالت خطرات سے محفوظ اور حکومت کے کنٹرول میں ہے جس سے یہ امید کرنی چاہئے کہ 12 اور 13 مارچ کی طرح 14 اور 15 مارچ کو بھی لانگ مارچ ایک پُرامن جمہوری احتجاج کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ملک میں موجودہ جمہوری عمل کے تسلسل میں کسی ایسی سنگین خطرہ کی گھنٹی کا موجب نہ ثابت ہو گا جس سے رینجرز یا فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کیلئے حرکت میں مجبور ہونا پڑے۔
یہ ایک خوشگوار پیشرفت ہے کہ موجودہ حکومتی نظام کے تمام اتحادی یعنی پیپلزپارٹی‘ جمعیت علماء اسلام‘ اے این پی اور ایم کیو ایم کی انفرادی اور مجموعی قیادت مفاہمت کی پالیسی پر گامزن ہے اور وکلاء اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں جن میں مسلم لیگ (ن) سرفہرست ہے‘ ان سب کی طرف سے مزید ڈائیلاگ کے دروازے بند ہونے اور معزول فاضل جج صاحبان بشمول چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے 2 نومبر 2008ء کی پوزیشن پر بحال ہونے تک ان کا اسلام آباد میں احتجاجی دھرنا جاری رہے گا پھر بھی پا کستان کے اندر اور بیرون ملک مصالحتی کاوشیں جاری ہیں تاکہ کسی بھی لمحہ شاید ایسا فارمولہ طے کرنے میں برف پگھلنے کے امکانات پیدا ہو کر ٹکراؤ کی صورت سے بچاؤ کا دروازہ کھلنے کی امید پیدا ہو سکے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ جس ایک ایشو پر تقریباً تمام اتحادی پارٹیوں کا ا صولی اتفاق ہے یعنی پنجاب میں گورنر راج فوراً ختم کیا جائے اس پر عملدرآمد کرنے میں تاخیر نہ کی جائے تاکہ ایک فریق کو دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کا موقع نہ ملے اور دوسرے پنجاب اسمبلی کے ارکان بلاتاخیر اپنا لیڈر آف دی ہاؤس منتخب کر سکیں جس سے پنجاب کا سیاسی منظر ٹکراؤ کے ماحول سے نکل کر معمول پر آ جانے سے وکلاء اور دیگر حزب اختلاف کی پارٹیوں کا احتجاجی گراف کسی سنگین خطرہ کی ریڈلائن سے محفوظ ہو جائے گا۔ اس سلسلہ میں پاکستان کی فوجی قیادت نے گذشتہ چند دنوں میں مکمل غیرجانبداری کا ایک مثبت کردار ادا کیا ہے۔ یعنی سیاسی پارٹیاں اپنے سیاسی اختلافات سیاسی انداز میں ہی طے کریں۔ افواجِ پاکستان کی قیادت موجودہ نازک اور انتہائی سنگین بحرانی پس منظر میں اگر اپنے موجودہ رول ماڈل کردار پر سختی اور سنجیدگی سے ثابت قدم رہے تو موجودہ سیاسی طوفان کی آنکھ سے بچ نکلنے اور مستقبل میں سیاسی جمہوری عمل کے پروان چڑھنے میں ایک مثبت اور قابلِ تعریف پیشرفت ہو گی۔
مزیدخبریں