ایک امریکی مصنف نے کہانی میں لکھا تھا کہ ....بہت سے جانور اُلو کی اس خوبی سے متاثر ہےں کہ وہ رات کو دیکھ سکتا ہے .... وہ اُلو کے گرویدہ ہوگئے اور اسے بہت عقل مند سمجھنے لگے .... ایک دن تمام جانوروں نے ایک اجلاس میں اُلو کو اپنی رہنمائی کے لیے چن لیا اور اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہنے کا فیصلہ کرلیا .... اُلو کو چونکہ دن کو نظر ہی کچھ نہیں آتا لہذا وہ موٹروے کے درمیان میں چلنے لگا .... سب جانور بے حد متاثر ہوہی رہے تھے کہ کتنا نڈر لیڈر ہے کہ اتنے میں ایک تیز رفتار ٹرک آیا اور اُلو اور اس کے ساتھی پاش پاش ہوگئے .... پچھلے دنوں میں فیصل آباد موٹروے پر سفر کررہی تھی .... مجھے موٹروے پر بنائے گئے پل بھی بڑے دکھائی دئیے جبکہ موٹروے کی دو دو لینز کے درمیان نسبتاً چوڑی سی جگہ پر گھاس پھوس اور درخت لگے ہوئے نظر آئے .... معلوم ہوا کہ یہ چھ لینز کی موٹروے تھی .... تمام کا تمام کام مکمل ہوچکا تھا .... تین تین کی آنے اور جانے کی لینز مکمل ہو چکی تھیں .... ایک Layer اوپر کی باقی تھی تمام کے تمام پل بھی چھ کی لین کے حساب سے بن چکے تھے ۔ کہ سابق صدر پرویز مشرف کاحکم نامہ جاری ہوا کہ موٹروے کو چار لین کا بنایاجائے اور پھر سترہ کروڑ سے زائد کی کثیر رقم خرچ کرکے درمیان کی دو لین میں مٹی ڈالی گئی اور پھر ان پر درخت لگائے گئے .... اور یوں ملک وقوم کا پیسہ برباد اور اکانومی کو پاش پاش کیا گیا .... یہ دولینز بند کرنے کے لیے کئے اطراف کو شولڈر سائیڈ کا انتخاب بھی کیا جاسکتا تھا تاکہ وقت آنے پر موٹروے کو ڈسٹرپ کیے بغیر اطراف کی سڑکیں کھول دی جائیں مگر صدارتی حکم نامہ چاہیے غلط ہی ہو اس پر بے سوچے سمجھے عملدر آمد کرنے کے سواءکیا صورت رہ جاتی ہے .... کسی بھی ملک کی ترقی کا راز مواصلاتی نظام کے تیز تر اور بہتر شکل میں موجود ہونے پر ہوتا ہے .... کسی ملک کی معاشی ترقی کا راز بھی مواصلاتی نظام کی بہتر موجودگی میں مضمر ہوتا ہے ۔ مگر ہمارے ہاں ایک عرصہ تو پرویز مشرف جیسے لوگ لیڈر بننے آجاتے ہیں کہ جو قوم کو دن دیہاڑے ایسی شاہراہوں پر لے کر چل پڑتے ہیں کہ جہاں خسارے کے سوا کچھ نہیں ہوتا .... فیصل آباد کو پاکستان کا مانچسٹر کہا جاتا ہے .... صنعتی اعتبار سے ترقی کرکے یہ شہر پاکستان کی معیشت کو سنھبالا دے سکتا ہے اور اگر پچاس سال کے بعد کے بارے میں سوچنے کی ہمیں عادت ہو تو یہ بات سوچی جاسکتی تھی کہ آئندہ آنے والے زمانوں میں اس قدر اہمیت والے شہر میں موٹر وے چھ لینز کی بھی ضرورت میں آسکتی ہے .... لہذا مٹی ڈالنے سے پہلے یہ فیصلہ کر لیاجاتا کہ حکم تو نہیں ٹالا جاسکتا مگر شولڈرز والی سائیڈ کی سڑکیں بند کرکے عقلمندی کا مظاہرہ تو کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ حکمران تو آتی جاتی چیز ہے مگر یہ ملک تو سلامت رہے گا اور یہ سڑکیں بھی کام آتی رہیں گی.... شیر شاہ سوری کو مرے ہوئے زمانہ گزر گیا مگر لوگوں کی آمدورفت کے ذرائع تو کام میں آرہے ہیں .... مگر ہمارے حکمرانوں کے دل ودماغ میں انسانوں کی فلاح وبہبود کے بارے میں کوئی تصور قائم نہیں ہوتا اور پھر یہاں تو جیبیں بھرنے کا ایک سلسلہ قائم ہو چکا ہے .... فیصل آباد یا لاہور سے واپسی پر جب ٹول پلازہ کی قطار میں داخل ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ کتنی کتنی دیر رش میں کھڑے رہتے ہیں اور محض ٹول کے پیسے دے کر آگے بڑھنے کے لیے انہیں طویل انتظار کے کرب سے گزرنا پڑتا ہے .... موٹروے والوں کو جب عوام پر رحم آگیا کہ ٹول کی رقم سے زیادہ تو گیس ‘ پٹرول اور پھر وقت ضائع ہوجاتا ہے تو انہوں نے ٹول کے گیبن بڑھانے اور گاڑیوں کے جلدی نکلنے کے لیے Extention کا ارادہ کیا ۔ ایک مرتبہ پھر بائیں جانب سے نئے گیبن اور نئی لین بنانا شروع کی گئی مگر اسی لین کے آگے ان کے اپنے دفاتر بنے ہوئے ہیں .... جبکہ دائیں جانب کھلی جگہ موجود تھی .... اب امید ہے کہ لین کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے بائیں جانب کا انتخاب کرنے کے بعد یہ کروڑوں روپے کے دفاتر مسمار کیے جائیں گے .... سڑک آگے بڑھائی جائے گی .... اور عوام کو سہولت دینے کے اس عمل میں نہ جانے کتنے کروڑ کہاں کہاں جائیں گے بالکل اسی طرح کے جیسے پرویز مشرف کے حکم کے بعد فیصل آباد موٹروے کی چھ لائنز کو چار میں بدلا گیا اور دو لین بند کرنے ‘مٹی ڈالنے اور درخت لگانے پر سترہ کروڑ کی کثیر رقم خرچ کی گئی.... فیصل آباد یا لاہور سے آنے والے راولپنڈی کی موٹروے کے اختتام پر ٹول پلازہ کی لینز بڑھائے اوردفاتر گرانے میں نہ جانے کتنی رقم خرچ کی جائے گی .... سوچنے کی بات یہ ہے کہیں ہم نے بھی اپنی اپنی رہنمائی کےلئے کسی ایسے رہنما کا انتخاب تو نہیں کیا ہوا کہ جسے جانوروں نے اُلو رہنما چن لیا تھا....