جب تک قانون پر عمل نہیں ہوگا اور قانون بلاتفریق امیر و غریب سب کو ایک نظر سے نہیں دیکھے گا اس وقت تک ترقی کے ہم صرف ”خواب“ ہی دیکھتے رہیں گے یہاں صورت حال یہ ہے کہ قانون سازی اپنے من پسند افراد کو فائد پہنچانے کیلئے آناً فاناً کر لی جاتی ہے، کسی ایک فرد کو نقصان پہنچانا مقصود ہو تو پھر بھی راتوں رات قانون میں ترمیم کر لی جاتی ہے مثلاً پارلیمنٹ می داخل نہ ہونے کیلئے بی اے کی شرط پرویز مشرف نے صرف وطن عزیز کے زیرک اور محب وطن جمہوریت کے علمبردار سیاستدان نواب زادہ نصراللہ مرحوم کے لئے لگائی۔ بعد میں جب زرداری صاحب کا دور آیا ان کی تعلیم غالباً ایف اے تھی انہوں نے اس شرط کو ختم کر دیا جب مشرف نے بی اے کی شرط لازمی قرار دی تو اراکین پارلیمنٹ نے ”تھوک“ کے حساب سے جعلی ڈگریاں حاصل کر لیں۔ موجودہ پانچ سالہ دور اقتدار میں ان جعلی ڈگری ہولڈرز نے خوب مزے لوٹے اور مال و دولت بنایا۔ ایک دو نہیں سینکڑوں کی تعداد میں سیاست کے ان ٹھیکیداروں نے دو نمبر ڈگریاں حاصل کیں اور موجودہ پارلیمنٹ انہیں ”جعلسازوں“ پر مشتمل ہے، یہی وجہ ہے کہ اس پارلیمنٹ نے وطن عزیز کو معاشی، معاشرتی، خارجی غرض ہر سطح پر جس قدر ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور وطن عزیز میں کرپشن کے بل بوتے پر جس طرح ملک کو تاریکیوں میں ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دیگر کئی ”باعزت“ اور ”باضمیر“ جعل ساز اراکین پارلیمنٹ کے علاوہ حال ہی میں ”ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور“ کے مصداق وفاقی وزیر تعلیم شیخ وقاص اکرم کے بارے میں بھی انکشاف ہوا ہے کہ موصوف وزیر تعلیم بھی جعلی ڈگری کے ساتھ وزارت تعلیم جیسے مقدس عہدے کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ موصوف کا کمال یہ ہے کہ انٹر یعنی ایف اے کیلئے بغیر ہی بی اے کی ”ڈگری یافتہ“ ہیں۔جمشید دستی نے دستی طور پر ڈگری حاصل کی تھی۔ اب سوال یہ ہے کہ قانون ان جیسے ”جعل سازوں“ کیلئے حرکت میں کیوں نہیں آیا؟ کیا یہ لوگ صاحبِ اقتدار ہیں اور اہل ثروت بھی؟ ہمارے معاشرے میں اگر کوئی غریب طالب علم میٹرک کی جعلی سند کے ساتھ پکڑا جائے تو ہمارے ”قانون“ کے رکھوالوں کی پھُرتیاں دیکھنے کے لائق ہوتی ہیں۔ صرف اُس طالب علم کا نہیں بلکہ اس کے اہل خانہ کا بھی ”قانون“ جینا حرام کر دیتا ہے مگر ان ”مگر مچھوں“ کیلئے قانون حرکت میں آنے کی بجائے انکے گریبان پکڑنے کی بجائے انہیں ”سلیوٹ“ کرتا ہے کوئی بھی مہذب معاشرہ ان جیسے جعلسازوں کو قبول نہیں کرتا اور قانون کے مطابق انہیں ہر حال میں سزا بھی دی جاتی ہے۔ ابھی گزشتہ سال سعودی عرب میں ایک خاتون لیکچرار کی جعلی سند کا کیس سامنے آیا تھا تو وہاں نہ صرف اس خاتون کی سابقہ تنخواہوں کو حرام قرار دیا گیا بلکہ اُسے سزا بھی دی گئی۔ ایسا ہی واقعہ حال ہی میں جرمن میں بھی پیش آیا۔ اُدھر بھی وزیر تعلیم اپنیٹی شپوانز نے ڈاکٹریٹ کے لئے جو ادبی مقالہ پیش کیا تھا اس میں جعلسازی کی تھی تو مذکورہ وزیر کو فوراً وزارت سے ہٹا دیا گیا، مگر ہمارے ہاں کوئی ایک بھی ایسی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی کہ جعلی ڈگریاں ہولڈر ”باضمیر“ سیاستدان خود ہی حکومت سے علیحدگی اختیارکر لیں بلکہ جمشید دستی جیسے بجائے شرمندہ ہونے کے پچھلے دنوں بانی پاکستان قائداعظمؒ سے منسوب کالج کا نام بدل کر ذوالفقار علی بھٹو کا نام رکھنے پر بضد تھے۔ غالب سے معذرت کے ساتھپارلمینٹ کس منہ سے جاﺅگے ”دستی‘ اب سوال یہ ہے کہ حالیہ الیکشن میں کیا الیکشن کمیشن ان ”جعلسازوں“ کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ ابھی تک کی جو صورت حال ہمار ے سامنے آئی ہے اس میں تو الیکشن کمشن ان جعلی ڈگری ہولڈرز کے بارے میں کوئی کارروائی نہیں کر سکا اور وہ بے بس دکھائی دے رہا ہے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے H.E.C کی طرف سے 2010ءاور 2011ءمیں جعلی ڈگری ہولڈر قرار دیئے جانے والے ایک بھی رکن پارلیمنٹ کے خلاف ابھی تک کارروائی نہیں کی۔ ان جعلسازوں میں 86 فیصد ارکان اب بھی پارلیمنٹ کی رکنیت رکھتے ہیں۔ یہ جعلی قانون ساز تقریباً سب سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری نظر میں تو یہ آئندہ الیکشن میں بھی یہی لوگ سامنے آئیں گے کیونکہ سپریم کورٹ جیسے ادارے کے احکامات کی بھی یہ ”قانون ساز“ تضحیک کرتے آئے ہیں اور جب عدالتِ عظمٰی کے احکامات کو بڑی ڈھٹائی سے یہ ”جعل ساز“ رد کرتے اور پاو¿ں تلے روندتے رہے ہیں تو الیکشن کمشن انکے خلاف کیا ایکشن لینے میں کامیاب ہو پائے گا۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ اس میں کوئی دورائے نہیں ہیں کہ اگر ایک بھی جعلی ڈگری ہولڈر دوبارہ الیکشن میں شامل ہوتاہے یا اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی باقاعدہ طور پر عمل میں نہیں لائی جاتی تو خود الیکشن کمیشن اپنی آئینی حیثیت کھو دے گا اور محض ایک مذاق ہی تصور ہوگا اور اگر یہی جعلی قانون ساز دوبارہ پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں تو مستقبل کی خطرناک ملکی صورت حال کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ نے جو کہ تقریباً انہی ”جعلسازوں“ پر مشتمل تھی سوائے دونوں ہاتھوں سے ملکی وسائل کو لوٹنے کے کوئی ایک بھی قابل ذکر ”کارنامہ“ سرانجام نہیں دیا اگر الیکشن کمیشن کے چیئرمین ”فخرو بھائی“ واقعہ ہی اہل پاکستان کی نظروں میں ”قابل فخر“ مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان جعلسازوں سے عوام الناس کو انہیں ہر حال میں نجات دلانا ہو گی۔
الیکشن کمشن قوم کو ”جعلی قانون سازوں“ سے بچا پائے گا؟
Mar 14, 2013