اسلام آباد (این این آئی + آن لائن) سپریم کورٹ نے الیکشن کمشن کی تشکیل کے خلاف طاہرالقادری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ طاہرالقادری دوہری شہریت کے حامل تھے۔ ان کی ریاست سے وفاداری منقسم تھی، طاہر القادری کو بطور فرد آئینی ادارے کے چیلنج کا حق حاصل نہیں تھا، دوہری شہریت کا حامل شخص اپنے کچھ حقوق کھو بیٹھتا ہے، رجسڑڈ ووٹر یا 18 سے 20 کروڑ عوام میں سے کسی نے بھی الیکشن کمشن پر انگلی نہیں اٹھائی، طاہرالقادری نے عوامی اجتماعات میں انتخابات کے التوا کی بات کی، الےکشن کمشن مکمل طور پر فعال ہو جانے کے بعد سے ہی کمشن انتخابات کے انعقاد کی طرف گامزن ہے، قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلےاں آئےنی مدت پوری کرنے جا رہی ہےں انتخابی فہرستےں بڑی حد تک مکمل کر لی گئےں۔ سپریم کورٹ نے طاہرالقادری کی آئینی درخواست میں تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس میں کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 184(3) عدالتِ عظمیٰ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ عوامی اہمیت کے معاملات کو بنیادی حقوق کے نفاذ کے تناظر میں طے کرے۔ موجودہ مقدمہ میں مدعی نے اپنا حق متعین کرنے کیلئے اس عدالت کے متعدد فیصلوں پر انحصار کیا ہے لیکن وہ اس حقیقت سے قطع نظر رہے کہ اختیار سماعت عدالت کے غور و فکر کے بعد استعمال ہوتا ہے جبکہ بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے مفاد عامہ کا مسئلہ اٹھایا جائے۔ یقیناً عدالتی غور و فکر مفاد عامہ کی موجودگی میں قائم رہتا ہے جس کی تشریح مخصوص حالات میں مقدمہ کی بنیاد پر جو زِیر بحث ہو کے مطابق کی جاتی ہے۔ ایک شہری جو عدالتی اختیار سماعت کو اجاگر / استعمال کرتا ہے پابند ہے کہ عدالت کو مطمئن کرے کہ وہ نیک نیتی سے عدالت کے سامنے پیش ہو رہا ہے اور اسے حق حاصل ہے کہ وہ بیان کردہ بنیادی حقوق کے نفاذ کو طلب کرے۔ جن مقدمات پر مدعی نے انحصار کیا ہے ان میں اس عدالت نے اختیار سماعت استعمال کیا جہاں یہ بات متعین تھی کہ ایک یا زیادہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ مذکورہ آرٹیکل میں ایک فرد یا ایک گروہ یا اشخاص کی ایک جماعت کے متعلق بنیادی حقوق کے نفاذ کیلئے جبکہ ان کی خلاف ورزی ہو رہی ہے بہت گنجائش موجود ہے تاہم یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ عام طور پر مقدمہ کی بنیاد پر خدوخال واضح کرے تاکہ کارروائی کوبا ضابطہ بنایا جا سکے جو ایک گروہ یا ایک جماعت نے شروع کی ہوں۔ الفاظ ”مفاد عامہ“ کے بارے یہ سپریم کورٹ پر منحصر ہے کہ ہر مقدمہ پر غور کرے آیا کہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق ”مفاد عامہ“ کا عنصر موجود ہے چاہے انفرادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہو یا ایک گروہ اور اشخاص کی ایک جماعت کے حقوق کی خلاف ورزی ہو۔ کسی ایک شخص کیلئے بطور سائل مفادِ عامہ بالکل واضح ہے کہ وہ دئیے گئے حقائق سے یہ ظاہر کرے کہ وہ کسی ایک گروپ یا ایک طبقے کے بنیادی حقوق کے نفاذکے لئے اس عدالت کے دائرہ اختیارکو متحرک کرنے کے لئے نیک نیتی سے کام / عمل کر رہا ہے۔ عدالت احتیاط سے جائزہ لیتے ہوئے طے کرتی ہے کہ افراد کا گروہ ےا عوامی رکن جو عدالت کے دروازے پر دستک دےتا ہے آےا کہ اس کی اپنی نےت صاف ہے اور وہ کسی ذاتی طمع، مقصد ےا سےاسی رغبت ےا کسی دوسرے غلط مقصد کی خاطر تو نہےں آ رہا۔ عدالت کو اپنے اختےارات کا کسی بھی غلط مقصد کے لئے استعمال نہےں ہونے دےنا چاہئے، کچھ لوگ خاص مقاصد کی بنا پر عدالتی عمل مےں عادتاً ےا غلط مقاصد کی مداخلت کرتے ہےں کےونکہ ےہ عام مشاہدے مےں آےا ہے کہ مفاد عامہ کے لبادہ مےں اےسے معاملات بھی عدالت کے سامنے لائے جاتے ہےں جو نہ تو عوامی اہمےت کے حامل ہوتے ہےں اور نہ ہی ان کا تعلق بنےادی حقوق ےا عوامی فرائض سے ہوتا ہے۔ درخواست گذار نے عدالت سے رجوع کرنے کےلئے اپنی نیک نیتی ثابت کرنے کے اور دادرسی کی استدعا کرنے کے ساتھ ساتھ حالیہ درخواست دائر کرتے ہوئے یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ درخواست میں اُٹھایا گیا سوال عوامی اہمیت کا حامل ہے جس کی وجہ سے بنیادی حقوق کا نفاذ کیا جائے گا تاہم وہ اپنی نیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں خاص طور پر اپنی موجودہ درخواست میں اور اِس میں نیک نیتی کی غیر موجودگی میں ایک شہری عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا جا سکتا۔ ایک موقع پر اُنہوں نے بیان کیا کہ مقدمے کی نوعیت رِٹ برائے پروانہ استفسار کی ہے جب عدالت نے اُن سے سوال کیا کہ اُنہیں الیکشن کمشنر یا الیکشن کمشن کے ارکان کی اہلیت پر کوئی اعتراض ہے تو اُنہوں نے نفی میں جواب دیا۔ اِس کی روشنی میں عدالت نے طے کیا کہ رٹ برائے پروانہ استفسار جاری نہیں کی جا سکتی۔ مذکورہ فیصلے میں قرار دیا گیا کہ الیکشن کمشن نے مکمل طور پر فعال ہونے کے بعد آئین کے آرٹیکل 219 کے تحت دی گئی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا شروع کر دیا مثلاً قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات کیلئے انتخابی فہرستوں کی تیاری کا کام اور اِن فہرستوں کی سالانہ جانچ پڑتال، سینٹ کے انتخابات کا انعقاد کرانا، صوبائی یا قومی اسمبلی کی نشستوں کو پُر کرانا، الیکشن ٹربیونلز کا تقرر کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ اُس وقت قومی اسمبلی کے موجودہ 342 ممبران اور سےنٹ کے 104 ممبران اور اسی طرح صوبائی اسمبلےوں، بلوچستان کے 65، خےبر پی کے کے 124، پنجاب کے 371 اور سندھ کے 104 ممبران کے تقرر کے وقت کوئی اعتراض ےا شرط رکھی گئی تھی اور نہ ہی آنے والے انتخابات کے امےدواروں نے عوامی نوعےت کے بنےادی حقوق کے نفاذ کے متعلق کوئی سوال نہ اس عدالت کے سامنے نہ ہی کسی صوبائی ہائی کورٹ کے سامنے اٹھاےا، وجہ ےہ ہے کہ پوری قوم آنے والے انتخابات کے لئے مکمل طور پر تےار ہے۔ الےکشن کمشن انتخابات کی تےاری تےزی سے کر رہا ہے، انتخابات سے قبل مردم شماری کے مرحلے کو آئےن اور قانون کے مطابق تقرےباً تمام ضروری اقدمات بروئے کار لائے ہوئے مکمل کر لےا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ چےف الےکشن کمشنر اور کمشن کے ارکان کی نگرانی مےں کئی ضمنی انتخابات کا انعقاد کےا گےا۔ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلےاں اپنی آئےنی مدت پوری کرنے جا رہی ہےں انتخابی فہرستےں بڑی حد تک مکمل کر لی گئےں ہےں، الےکشن کمشن مکمل طور پر فعال ہو جانے کے بعد سے ہی کمشن انتخابات کے انعقاد کی طرف گامزن ہے، تنہا نالش گزار کے سوا وہ بھی بحےثےت ووٹر کسی اور نے ان تقررےوں کو چےلنج نہیں کیا۔ درخواست گذار نے درخواست میں الیکشن کمشنر اور اراکینِ الیکشن کمشن کی تقرری کو چیلنج کیا جو فروری 2011ءسے فعال ہے تاہم وہ مذکورہ افراد کو درخواست ہذا کا فریق بنانے میں ناکام رہے۔ درخواست کو تاخیر / غفلت کے نظریہ کے تحت بھی ناقابلِ سماعت قرار دیا گیا کیونکہ درخواست گذار گذشتہ دسمبر میں پاکستان آئے تھے۔ آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت درخواست کا لازمی جزو عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کا نفاذ ہوتا ہے تاہم درخواست گزار اپنی درخواست میں کسی ایک بنیادی حق کو بھی ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کا وہ نفاذ چاہتے ہیں اور نہ ہی اُنہوں نے کوئی ایسا معاملہ جو کہ اِن حقوق کے نفاذ سے متعلق ہو اپنے دلائل میں اُجاگر کیا۔ جب درخواست گذار آئین میں مروجہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ثابت کر دیتا ہے تو عدالت کی کوشش ہوتی ہے کہ اُس کی دادرسی کی جائے تاہم بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ثابت کرنا درخواست گذار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ بیان کرے کہ وہ کون سا حق ہے جس کی خلاف ورزی کی گئی ہے لیکن موجودہ مقدمے میں وہ کسی بھی بنیادی حق کی خلاف ورزی ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ ملک کے کسی بھی رجسٹرڈ ووٹر کو درخواست گذار کی طرح حق حاصل ہے کہ وہ عدالت ہذا میں کوئی آئینی درخواست دائر کرے۔ قطع نظر اِس بات کے کہ درخواست گذار کی شہریت کیا ہے اور وہ کہاں رہائش پذیر ہے اُسے اُس معیار پر پورا اُترنا چاہئے جو اوپر بیان کئے گئے ہیں۔ درخواست گذار کے مطابق اُن کے پاس کینیڈا کی شہریت ہے جو اُنہوں نے کینیڈین قانونِ شہریت مجریہ 1985ءکی دفعہ 24 کے تحت حاصل کی گئی ہے اور جس کے تحت انہوں نے کینیڈا اور وہاں کی ملکہ کے ساتھ وفاداری کا حلف اُٹھایا ہے۔ بطور ایک سمندر پار پاکستانی اور ووٹر درخواست گذار اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر سکتا ہے۔ وہ اپنے انفرادی حقوق جن میں حصولِ جائیداد اور دیگر شخصی حقوق شامل ہیں کی مانگ بھی کر سکتا ہے اور اُن کا نفاذ بھی کرا سکتا ہے تاہم دوہری شہریت رکھتے ہوئے چونکہ اُس نے غیر ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اُٹھایا ہے اور کسی دوسری مملکت کے مفادات کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے لہٰذا عدالت نے طے کیا اپنی وفاداری کسی اور ملک کو دینے سے ایک شہری قانون کے تحت اپنے کچھ حقوق کھو بیٹھتا ہے۔ پاکستان کا آئین واضح طور پر ایسے شخص کو دوہری شہریت کی بنا پر الیکشن میں حصہ لینے اور پارلیمنٹ کا رکن منتخب ہونے سے روکتا ہے لہٰذا اُس کے مفادات اُن شہروں کی طرح نہیں ہو سکتے جو الیکشن میں حصہ لینے کے اہل ہیں۔ اِس پسِ منظر کو بیان کرتے ہوئے عدالت نے اِس حقیقت کو بھی مدِنظر رکھا کہ درخواست گذار نے بہت سے مواقع پر عوامی اجتماعات میں اور میڈیا میں آئندہ عام انتخابات کے التوا کی بات کی۔ اپنے مقررہ ایجنڈے کو حاصل کرنے کےلئے اُنہوں نے لانگ مارچ بھی کیا جو کہ اُن کے اور حکومت کے مابین ایک باہمی معاہدے پر منتج ہوا۔ اِن حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے درخواست گذار اپنی نیک نیتی آئین کی دفعہ 184(3) کی رو سے جس کے تحت اُس نے عدالت ہذا سے رجوع کیا ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اِس موقع پر جب تمام ملک بشمول سیاسی جماعتیں اور ووٹرز آنے والے انتخابات کی تیاریوں میں مشغول ہیں وسیع تر قومی مفاد اور درخواست گذار کے مقصد کو مدِنظررکھتے ہوئے طے کیا کہ اِس موقع پر عام انتخابات میں تاخیر یا اُن کو ملتوی کرنا وسیع تر قومی مفاد میں نہیں۔ اے پی اے کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ طاہر القادری نے طے شدہ ایجنڈا کے لئے لانگ مارچ کیا اور بعد میں حکومت سے معاہدہ کر لیا۔
سپریم کورٹ / طاہر القادری