اسلام آباد (نیٹ نیوز+ بی بی سی) وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے گوادر بندرگاہ کے معاملے کو زیرِ بحث لانے کے لئے مسلح افواج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے تجویز کردہ کابینہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس بلانے کے بجائے انہیں وزارتی سطح پر یہ معاملہ اٹھانے کا حکم دیا ہے۔ فوجی قیادت چین کو گوادر کی بندرگاہ کا انتظام دئیے جانے کے فیصلے کو کابینہ کی دفاعی کمیٹی میں زیر بحث لانا چاہتی تھی۔ اس معاملے سے باخبر ایک سینئر فوجی افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ کابینہ کمیٹی میں یہ معاملہ زیربحث نہ آنے سے فوجی قیادت میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ حکومت اس اہم اور نازک معاملے پر فوجی قیادت کا اعتماد نہیں لینا چاہتی۔ فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ کا انتظام سنگاپور کی کمپنی سے لے کر چین کے حوالے کرنے کے فیصلے پر فوجی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ گوادر کی بندرگاہ کو ایک کمپنی سے لے کر دوسری کے حوالے کرنا خالصتاً کاروباری معاملہ ہے۔ تاہم فوجی قیادت اس مو¿قف سے اتفاق نہیں کرتی۔ فوجی ذرائع کے مطابق اعلیٰ فوجی قیادت سمجھتی ہے کہ گوادر کی بندرگاہ کاروباری کے علاوہ دفاعی حکمت عملی (سٹریٹجک) کا معاملہ بھی ہے، اتنی اہم نوعیت کا فیصلہ کرنے سے قبل فوجی قیادت کو اعتماد میں لینا ضروری تھا۔ اس کے علاوہ پاک بحریہ گوادر کی بندرگاہ پر چھ برتھیں اپنے لئے مختص کروانے میں بھی دلچسپی رکھتی تھی، وزیراعظم نے دفاعی کمیٹی کا اجلاس نہ بلا کر اس معاملے کو بھی سرد خانے کی نذر کر دیا ہے۔ اہم فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی قیادت کابینہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاہدے پر بھی بات کرنے کی خواہاں تھی۔ بی بی سی کے مطابق فوجی ذرائع کے مطابق گوادر کی طرح حکومت نے ایران کے ساتھ گیس کے منصوبے پر بھی فوجی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ فوجی قیادت سمجھتی ہے کہ یہ دونوں (گوادر بندرگاہ اور ایران گیس پائپ لائن) ایسے منصوبے ہیں جن کے نہ صرف پاکستان بلکہ خطے پر دور رس سیکیورٹی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے بارے میں دفاعی شعبے کے متعلقہ افسروں سے مشورہ بہت ضروری تھا۔
فوجی ذرائع