جتنا زور اور شور یعنی زور شور نگران وزیراعظم کے لئے دکھایا جا رہا ہے یہ کبھی پہلے نظر میں نہیں آیا تھا اور ایسا ”مہمان“ وزیراعظم یعنی ”باقاعدہ“ وزیراعظم کے لئے کبھی نہیں دکھایا گیا۔ ورنہ یوسف رضا گیلانی جیسا ”بھوکا“ آدمی وزیراعظم بن جاتا ہے۔ اسے قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا پھر راجہ پرویز اشرف کے لئے ہر بندہ شرمندہ تھا کہ اب یہ وزیراعظم ہوں گے۔ مگر وہ ہو گئے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اسمبلیاں ختم ہونے کے بعد بھی نگران وزیراعظم نہ آیا تو وہی نگران وزیراعظم ہوں گے۔ ہمارے ملک میں نگرانی اور من مانی یعنی حکمرانی میں کوئی فرق نہیں۔ راجہ صاحب چپ کرکے نگران وزیراعظم بن جائیں یعنی اپنے آپ کو صدر زرداری سے بنوا لیں۔ آنے والے الیکشن کا کچھ پتہ نہیں۔ میری مانیں تو فائدہ اسی میں ہے۔انہوں نے ”جاتے جاتے“ دو اہم کام کئے ہیں۔ اپنے دامادوں کو ترقی دلوائی ہے اور دو افسروں کو پلاٹ الاٹ کئے ہیں۔ یہ کوئی کام نہیں ہر وزیراعظم یہ کرتا ہے۔ البتہ یہ ”کام“ ہے کہ وہ اجمیر شریف میں حاضری کے لئے بھارت گئے۔ کہنے کو تو یہ نجی دورہ تھا مگر وہاں بھی پاکستانی پروٹوکول اور سیکورٹی لی گئی۔ اجمیر شریف میں ان کے خلاف نعرے لگے۔ ان کی وجہ سے پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف بھی نعرے لگے۔ اس کے لئے انہیں برا نہیں لگا ہو گا۔ وہ وہاں بھی بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی بے قراری کا اظہار کرنا نہ بھولے۔ اجمیر شریف کے لوگوں نے ان کے قدموں سے آلودہ ہونے والی زمین کو دھونے کا اعلان بھی کیا ہے۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ اب پاکستان کے وزیراعظم کا کیا حال ہو گیا ہے۔ دوسرے ملکوں میں پاکستان کے وزیراعظم کی کیا اوقات رہ گئی ہے۔ صدر زرداری کے لئے تو ایسا کسی نے نہ کہا تھا پاکستان سے اور بھی کئی مسلمان وہاں جاتے رہتے ہیں۔ دورے میں راجہ صاحب کے 26 رشتہ دار بھی ساتھ تھے۔ انہیں اس سے پہلے کبھی اجمیر شریف جانے کا خیال نہ آیا تھا۔ راجہ صاحب نجی دورے کی وجہ سے وزیراعظم نہ تھے مگر ان کے شان و شوکت اور بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید کے سامنے راجہ صاحب کی عاجزی دیکھ کر لوگوں کو یقین ہو گیا کہ یہ ضرور پاکستانی وزیراعظم ہیں۔ یہاں اکبر بھی ننگے پاﺅں آئے تھے اور اندرا گاندھی بھی ایک عام عورت کی حیثیت سے آئی تھی مگر ہمارا صدر اور ہمارا وزیراعظم اس طرح آیا کہ حضرت معین الدین چشتیؒ کی روح کو دکھ ہوا ہو گا۔راجہ پرویز اشرف تو اس طرح دربار میں داخل ہوئے کہ ان کے سر پر ایک چادر کا سایہ تھا جس طرح شادی کے موقعے پر دلہن کے سر پر چادر تانی جاتی ہے۔ اس کے سر پر قرآن کا سایہ بھی ہوتا ہے۔ شکر ہے ان کی اہلیہ اور متنازعہ خاتون اول نصرت صاحبہ بھی تھیں۔ وہ بھی ایک دلہن کی طرح لگ رہی تھیں۔ اس موقع پر پورا میک اپ کرنے کی کیا ضرورت تھی جبکہ سمیحہ راحیل قاضی نے حجاب کانفرنس میں ان کو مہمان خصوصی کے طور پر بلایا تھا۔ حجاب کے معنی گہرے ہیں جو امیر کبیر اور ماڈرن عورتیں نہیں جانتیں۔ میں تو انہیں خاتون اول مانتا ہوں۔ وہ فریال تالپور کے سامنے خاتون اول بن کے دکھائیں۔ وہ صدر زرداری کی بہن ہیں اور آج کل سیاسی اور حکومتی ماحول میں چھائی ہوئی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ مادر ملت بھی قائداعظم کی بہن تھیں۔ ان کے سامنے رعنا لیاقت علی خان خاتون اول نہیں ہو سکتی تھیں۔ فریال تالپور کے لئے اطلاعاً عرض ہے کہ مادر ملت خاتون پاکستان ہیں۔یہ راجہ صاحب نے اپنی رانی کو بھی نہیں بتایا ہو گا کہ انہوں نے وہاں کیا منت مانی ہے۔ صدر زرداری نے تو اپنی اہلیہ شہید بی بی کی منت پوری ہونے پر شکرئیے کی حاضری دی تھی۔ ویسے منت تو خود زرداری صاحب کی پوری ہوئی ہے۔ وہ ایوان صدر پہنچ گئے ہیں۔دوسرا کام جاتے جاتے راجہ پرویز اشرف نے یہ کیا کہ کابینہ کے آخری اجلاس سے انگریزی زبان میں خطاب کیا۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ مجھے انگریزی آتی ہے۔ یہ بات ابھی تک نواز شریف ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نااہل وزیراعظم گیلانی صاحب نے ترکی کے حکمران کے لئے استقبالئے میں غلط انگریزی میں تقریر کی اور ترک حکمران نے ترکی میں تقریر کی اور انگریزی میں ترجمہ کرنے والے کی اصلاح بھی کی۔ میں نے گیلانی صاحب کو ایک غیر ملکی دورے میں اپنی غلط انگریزی کی وجہ سے مذاق اڑوانے کے بعد منع کیا تھا کہ اب آپ صرف اردو میں تقریر کیا کریں۔ میرے اس کالم کے لئے انہیں کسی نے بتایا تو انہوں نے کہا میں کیا کروں مجھے اردو بھی پوری طرح نہیں آتی۔ہمیں پتہ نہیں ہے کہ نگران وزیراعظم کون آئے گا کہاں سے آئے گا؟ مگر ہمیں یہ پتہ ہے کہ وزیراعظم کون ہو گا نواز شریف ہو گا ورنہ عمران خان ہو گا یا جسے صدر زرداری چاہیں گے۔ یعنی وہی لوگ ہوں گے جو ہوتے ہیں اللہ عمران خان کو بچائے؟ چودھری نثار نگران وزیراعظم کے لئے بیانات دے رہا ہے۔ وہ بتائے کہ کسی کو نگران وزیراعظم باہر سے بنا کے بھیج دیا جائے تو اسے کوئی اعتراض ہو گا؟ معین قریشی پہ کسی نے اعتراض کیا تھا۔ وہ اب بھی بیرون ملک رہتا ہے۔ حیرت ہے کہ عمران خان نے نگران وزیراعظم کے لئے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی۔ محترم منور حسن نے کہا ہے کہ ملک ریاض کو نگران وزیراعظم بنا دو خدا کی قسم اس کے لئے کوئی اعتراض نہ کرے گا۔ آج بھی سب سیاستدان ملک ریاض کی نوازشات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔سب سے زیادہ امکان حفیظ شیخ کا ہے۔ انہیںکسی نے صدر زرداری سے کہہ کر وزیر خزانہ بنوایا تھا۔ انہیں مستعفی ہو نے کی کیا ضرورت تھی۔ انہوں نے سنیٹری بھی چھوڑ دی ہے۔ اس کے لئے احسن اقبال نے کہا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ یہ بات انہوں نے ”کسی“ کے کہنے پر کی ہو گی۔ معین قریشی بھی ماہر معاشیات ہیں اور حفیظ شیخ بھی۔ اب اس کے آگے آپ خود غور فرمائیں؟ یا مجھے اس کے لئے بھی کالم لکھنا ہو گا۔ کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اتفاق ہو چکا ہے کہ کون بنے گا نگران وزیراعظم۔ یہ بھی غور طلب بات ہے کہ مسلم لیگ ق پیپلز پارٹی کی اتحادی ہے اس کا مشورہ بھی شامل ہو گا۔