صدر زرداری اور اُن کے نامزد کردہ گورنروں کے سوا، 16 مارچ کو ، وفاق اور صوبوں کے صاحبان ِ اقتدار ۔ سابق ہو جائیں گے ۔ بُلٹ پروف گاڑیوں اور پروٹوکول موبائل سے محروم ہو جائیں گے اور ووٹ مانگنے کے لئے Door To Door (دربہ در) پھِریں گے۔ ووٹر خواتین و حضرات کا نخرا آسمان پر ہو گا ۔ اور وہ امیدوارانِ قومی و صوبائی اسمبلی سے (خاص طور پر 5 سال تک اقتدار کے رنگ محل میں رنگ رلیاں منانے والوں سے) اِس طرح کے سوالات پُوچھیں گے، جِس طرح کے سوالات، ہمارے عقیدے کے مطابق، قبروں میں ، مُردوں سے (اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ دو فرشتے) مُنکرِ نکِیر پُوچھتے ہیں۔ داغ دہلوی کے شعر میں اگر ” فُرقت“ کی جگہ ” غُربت“ جڑ دیا جائے تو یوں ہو گا ۔۔۔
”غُربت میں، مجھ کو خانہ¿ تارِیک قبر ہے
مُنکر، نکِیر آئیں، اگر قِصّہ خواں نہیں“
امیدواروں کی، کوئی قِصّہ خوانی ، کام نہیں آئے گی ، خاص طور پر اُن کی قُربانیوں اور شہادتوں کی داستاں کو ، کوئی نہیں سُنے گا ، ہر حلقہ¿ انتخاب کے منکر نکِیر ، سوالوں کے گُرز لے کر، امیدواروں پر پِل پڑیں گے۔ جب امیدوار، نئے وعدے کریں گے تو، اُن سے پوچھا جائے گا کہ، پرانے وعدوں کا کیا ہُوا ؟“۔ تو درونِ خانہ چہ کر دی کہ برونِ خانہ آئی‘ یعنی تم اقتدار کے رنگ محل میں بیٹھ کر جو کچھ کرتے رہے ہو۔ بڑے بے شرم ہو کہ، پھِر ووٹ مانگنے آ گئے؟ بھکاریوں کی طرح دُھتکارے جائیں گے۔ دراصل ہر صاحبِِ اقتدار وہی غلطی کرتا ہے ، جو اُس سے پہلے نے کی ہوتی ہے، لیکن اُسے سمجھ اُس وقت آتی ہے جب کُرسی چھِن جاتی ہے۔ مُدّت پوری ہونے یا وقت سے پہلے۔ جب ٹھوکریں پڑتی ہیں تو چیخ اُٹھتا ہے کہ ۔۔۔
”مَیں بھی کبھی، کسی کا، سرِ پُر غرور تھا“
ہوتا یُوں ہے کہ، اقتدار مِلنے کے فوراً بعد، زوال شروع ہو جاتا ہے ، لیکن مو¿رخین کسی بھی سلطنت کے زوال کے اسباب ، بعد میں لِکھتے ہیں۔ یُوں تو ہمارا ہر حُکمران ہی، عبرت کی مِثال بنا ، لیکن ۔ ذُوالفقار علی بھٹو اور اُن کی پارٹی کا عروج و زوال ، ہماری قومی تاریخ کی المناک داستان ہے۔ فوجی حُکمران سے کیا ِگلہ؟ کہ وہ تو طاقت کے ذریعہ رات کے اندھیرے میں، مادرِ وطن پر چڑھ دوڑتا ہے، لیکن ذُوالفقار علی بھٹّو پہلے سیاستدان تھے ، جو مسائل زدہ عوام کو، انقلاب کا خواب دِکھاتے ہوئے میدان میں اُترے۔ لوگوں نے انہیں مسیحا سمجھ لِیا، لیکن اُن کے دَور اقتدار میں بھی ۔۔۔
”روشنی لُوٹ لی، اُبھرے ہُوئے میناروں نے
پست ذرّوں کے مُقدّر میں ، وہی رات رہی“
ذُوالفقار علی بھٹّو کسی معاملے میں بھی، بدعُنوان نہیں تھے۔جب انہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف عِلم بغاوت بلند کِیا تو، سرکاری مشینری، بھٹّوصاحب کے خلاف، کوئی بھی بدعنوانی تلاش نہیں کر سکی، جنرل ضیاءاُلحق کی خفیہ ایجنسیاں بھی اِس معاملے میں ناکام رہےں ۔ نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں بھی۔ (مروّجہ قانون کے مطابق) بھٹو صاحب کو پھانسی نہیں ہو سکتی تھی، لیکن ہُوئی۔ احمد رضا قصوری نے اپنے والد کے قتل کی ایف آئی آر میں، بھٹّو صاحب کو ملزم نامزد کیا تھا، لیکن 1976ءمیں، جب بیگم نصرت بھٹو، ماڈل ٹاﺅن لاہور میں، احمد رضا قصوری کے گھر گئیں تو احمد رضا قصوری نے، میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ”بھائی کے گھر بہن آ گئی ہے اور میں نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے والد کا قتل معاف کر دیا ہے“
ذوالفقار علی بھٹو بہت بڑے قانون دان تھے اور اُن کی پارٹی میں بھی، بہت سے نامور وُکلاءشامل تھے، لیکن کسی کو بھی خیال نہیں آیا کہ وہ، احمد رضا قصوری کو، لاہور کی کسی عدالت میں پیش کر کے، یہ بیان دِلوا دے۔ کسی نے بھی قصوری صاحب کے بیان کوسنجیدگی سے نہیں لیا۔ احمد رضا قصوری دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے، لیکن بھٹو صاحب کے، بااثر حواریوں نے، 1977ءکے عام انتخابات میں، پیپلز پارٹی کے بانی رکن اورسابق رکن قومی اسمبلی، احمد رضا خان قصوری کی، پارٹی ٹکٹ کی درخواست مسترد کرا دی۔ پھر جنرل ضیاءالحق نے، نئے سِرے سے قصوری صاحب کو اپنے والد کے قتل کی سازش میں، بھٹو صاحب کے خلاف مُدعّی بنوا لیا۔
اس سے پہلے ایک اور بات ہوئی، جِسے، وزیرِاعظم بھٹو نے ذرہ بھر بھی، اہمیت نہیں دی۔ وہ تھا، اُس دور کے، ہوم سیکرٹری جناب تقی اُلدّین پال کا وہ خط، جو انہوں نے بھٹو صاحب کو لِکھا تھا۔ خط میں لِکھا گیا تھا کہ ”جنابِ والا! نواب احمد خان کے قتل کی سازش میں آپ کے خلاف مقدمہ، بہت ہی کمزور ہے، لاہور کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے فیصلہ کرا لیں تو بری ہو جائیں گے“ لیکن ”قائدِ عوام اور فخرِ ایشیا“ نے اِس کی کوئی پروا نہیں کی۔ چنانچہ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد وہ قُدرت اور مُلکی قانون کی گرفت میں آگئے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو، اپنے والد کی ”شہادت“ کو کیش کراکے دو بار وزیرِاعظم منتخب ہُوئیں۔ اُن کی قیادت میں پیپلز پارٹی ایک نئی پیپلز پارٹی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھیوں (Uncles) سے پاک۔ محترمہ حکومت کو دونوں بار مُدت پوری نہیں کرنے دی گئی، لیکن اُن کے دور میں بھی، غریبوں کے حق میں انقلاب نہیں لایا جا سکا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جناب آصف علی زرداری کو اپنی زندگی میں، پارٹی کا کوئی عہدہ نہیں دِیا تھا، لیکن موصوف، اُن کے قتل کے بعد پارٹی کے، سیاہ سفید کے مالک بن گئے اور صدرِ مملکت بھی منتخب ہو گئے۔ اِس بار پیپلز پارٹی۔ ایک نئی پارٹی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھیوں (برادران و خواہران) سے پاک۔
2008ءسے 2013ءتک، پاکستان کی پہلی ”جمہوری حکومت“ نے اپنی مُدت پوری کی۔ ”عوام کے حق میں انقلاب“ اِس بار بھی نہیں آ سکا۔ حکمرانوں کے خلاف مقدمات کی بھرمار رہی۔ یوسف رضا گیلانی اور ان کے بعد راجا پرویز اشرف کی وزارتِ عُظمیٰ کے دور کی عکاسی فیصل آباد کے شاعر، قمر لدھیانوی (مرحوم) بہت پہلے ہی کر گئے تھے، جب انہوں نے کہا تھا ۔۔۔
”اِک تیرا قمر، شہر میں، بدنام نہیں ہے
کِس کِس پہ، یہاں عِشق کا الزام نہیں ہے
صدر، وزیرِاعظم اور دوسرے حکومتی ارکان کے خلاف مختلف نوعیت کے مقدمات کی پیروی کے لئے، پانچ سال تک تو سرکاری خزانے، سے نامور وُکلاءکو معاوضہ دیا جاتا رہا ہے، لیکن مقدمات تو بہت سے ہیں اور بہت سے لوگوں کے خلاف، جنہیں سنجیدگی سے نہیں لڑا گیا اور اب ”غروبِ آفتابِ اقتدار کے بعد!“