لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ اور مسٹر جسٹس شجاعت علی خاں پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بنچ نے قرار دیا ہے کہ پراکسی کے ذریعے ہر بچہ گھر میں بیٹھا یو ٹیوب دیکھ رہا ہے جس سے لگتا ہے کہ حکومت یوٹیوب بند کرنے کے حوالے سے مذاق کر رہی ہے۔ پراکسی کی موجودگی میں یوٹیوب کی بندش کا حکومتی دعوی عوام کو فریب دینے کے مترادف ہے۔ فاضل عدالت نے یہ ریمارکس یو ٹیوب کی بندش اور اسے کھولنے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران دیئے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل وقاص قدیر ڈار نے وفاقی وزیر انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کا بیان عدالت کے سامنے پڑھ کر سنایا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے یوٹیوب اور دیگر سائٹس سے قابلِ اعتراض مواد ہٹانے کا حکم دیا تھا جس کی وجہ سے یوٹیوب کو بند کر دیا تھا ابھی تک پی ٹی اے نے فلٹریشن کیلئے ٹیکنالوجی حاصل نہیں کی اور اگر حاصل بھی کر لی جائے تو سو فیصد مواد روکا نہیں جاسکتا۔ عدالت نے جواب کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا۔ محمد اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے موقف اختیار کیا ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کیخلاف نہیں ہیں ہم صرف اِسے ریگولیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ اچھی بات ہے عدالت آپ کی اِس بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے مگر کیا یوٹیوب پر پابند ی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 19 بنیادی حق ہے مگر اِس پر مکمل آزاد ی نہیں آزادی رائے، ملکی سالمیت، لاء اینڈ آرڈر اور اخلاقیات کے تابع ہوگی۔ دوران سماعت یو ٹیوب کی بندش کے خلاف عدالت کو بتایا گیا کہ یو ٹیوب کو بند کر کے تین کروڑ پاکستانی تعلیمی، تفریحی اور مذہبی مواد سے محروم کر دئیے گئے ہیں۔ یوٹیوب کی ممکنہ بحالی کے خلاف درخواستیں دائر کرنے والے وکلاء نے موقف اختیار کیا کہ گستاخانہ اور فحش مواد ہٹائے بغیر یوٹیوب کھولی گئی تو ملک میں امن و امان کے مسائل پیدا ہوں گے۔ عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم خوابوں کی دنیا میں نہیں حقیقت کی دنیا میں رہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں متنازعہ مواد ہٹانے کی حکم دیا تھا یوٹیوب بند کرنے کا نہیں کہا ہم ہر طرف سے دروازے بند نہیں کر سکتے۔ عدالت نے پی ٹی اے کو حکم دیا کہ متنازعہ مواد ہٹانے یا بلاک کرنے کے حوالے سے ٹیکنالوجی موجود ہے یا نہیں اس حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ دوران سماعت این جی او کی عہدیدار خاتون گل بخاری کی جانب سے عدالتی کارروائی ریکارڈ کئے جانے کے انکشاف پر عدالت نے ریکارڈنگ ڈیوائس ضبط کر کے گل بخاری نامی خاتون کو توہین عدالت کے شوکاز نوٹس جاری کر دئیے۔