محترم میاں نواز شریف صاحب کے پچھلے دور حکومت میں کچھ لوگوں نے انہیں عمر ثانی کا لقب دیا۔چونکہ ہمارے ملک میں جمہوری حکومت ہے اور حکمرانوں کو عمرفاروقؓ کے قبیلے کے افراد شمارکرنے والے ”دانشور“بے شمار ہیں۔ ہمیں ان سے کوئی اختلاف نہیں ہمیں اپنے حکمرانوں کے اخلاص نیت اور ان کے عدل فاروقی کے وارث وامیں ہونے میں بھی کوئی شبہ نہیں۔معاذ اللہ ہم ایسا کوئی شبہ دل میں لا کر اپنا ایمان کھوٹا نہیں کرنا چاہتے۔ شیطان ایسا مہلک خیال دل میں لائے تو ہم لاحول ولا قوة پڑھ کے اسے فورا رفع کر دیتے ہیں۔مثلا کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے میاں صاحب نے انسداد ڈینگی کے سلسلے میں واک کا اہتمام کیاجس میں شہر بھر کے تمام کالجز اور سکول کے اساتذہ وطلبہ ”برضاورغبت“ شامل ہوئے لبرٹی چوک سے حسین چوک تک کی جانیوالی اس واک کے تمام راستوں میں تین تین منزلہ عمارتوں پر جتنے فلیکس آویزاں تھے ان پر جناب عزت مآب خادم پنجاب کی تصاویر کے ساتھ انتخابی نعرے درج تھے،تمام شرکاءکے ہاتھوں میں تھمانے کیلئے خوبصورت جھنڈیاں تھیں ہزاروں کے اس مجمع کیلئے مشروبات کا وافر انتظام تھا۔ خود بھی پیجئے اور گھر والوں کیلئے بھی لے جایئے۔ اس پروگرام کے نظم ونسق کیلئے ہائر کیے جانیوالے خواتین وحضرات نے جو ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں وہ بھی خاص طور پر اس موقع کیلئے تیار کروائی گئی تھیں۔ مشروبات کی تقسیم شرکا میں جوش پیدا کرنے اور دیگر امور کیلئے خاص گاڑیاں اور ٹرک سجائے گئے تھے۔تمام اساتذہ اور طلبہ کولانے اور لے جانے کیلئے روٹس پر چلنے والی بڑی بسوں کو ہائر کیا گیا۔واک کے روٹ پر جگہ جگہ بڑے سٹیج بنائے گئے تھے جن پرمیوزیکل گروپ داد فن سمیٹ رہے تھے۔ ہم پاوں تلے ڈینگی کو کچلتے جا رہے تھے اور خادم پنجاب کی بصیرت کو سلام کرتے جا رہے تھے کہ یکایک شیطان بدبخت نے ایک واہمہ ڈال کے ہمارا مزہ کرکرا کرنے کی کوشش کی کہ جناب خادم پنجاب کوسرکاری خزانے سے اپنی ذاتی انتخابی تشہیری مہم چلانے کی اجازت کس نے دی۔زر کثیر خرچ کر کے ہر اتوار کو ایسی بے کار واک کی بجائے ”اصلی والا“ سپرے کروا دیا جاتا تو مچھر ختم ہو جاتا۔ہمیں چونکہ حکمرانوں کے اخلاص نیت میں کوئی شک نہیں سوفورا لاحول ولا قوة پڑھ کے اس شیطانی واہم سے نجات حاصل کی۔ جسے یار لوگ ضمیر کی آواز کا نام دیتے ہیں۔ایسا ہی ایک قصہ لیپ ٹاپ تقسیم کی تقریب میں بھی پیش آیا وہاں بھی ہم نے حکمرانوں پر اپنے ایمان کو بڑی مشکل سے بچایا اسی طرح کا واہم حکمرانوں کے جلسوں میں ہونیوالی بجلی چوری کو دیکھ کے پیدا ہوا اسی طرح کے خیالات بد حکمرانوں کی ذاتی خدمت پر مامور سرکاری ملازموں اور پولیس افسروں کو دیکھ کے پیدا ہوئے۔ایسی ہی پریشانی سیاسی ورکروں اور افسران بالا کی بیگمات کوگھربیٹھے سرکاری خزانے سے تنخواہ لیتے دیکھ کر ہوتی ایسے ہی خدشات انڈر میٹرک ایم پی اے اور ایم این اے حضرات کوانٹلک چوئلز پر حکومت کرتے دیکھ کے پیدا ہوئے۔اسی طرح کے واہمے اور وسوسے ووٹوں کی خرید و فروخت پر دل میں ا±ٹھے۔ ان خدشات، خیالات اور واہموں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہیں ہم نے بڑی مشکل سے دھتکارا تھا۔ اب کیا کہیں برا ہو کہ بھلا ہو اس آزاد میڈیا کا جس نے ایک عالم دین کی تقریر سنوا دی جس میں انہوں نے سیدنا عمر فاروقؓ کے دور حکومت کا ایک واقعہ سنایا۔ ہوا یوں کہ آپؓ کے دورحکومت میں مال غنیمت میں چادریں آئیں سب کے حصے میں ایک ایک چادرآئی۔ سیدناعمرفاروقؓ نے دوچادروں سے لباس تیارکروایا جب اسے پہن کے مسجد میں تشریف لائے توایک عام آدمی نے کھڑے ہوکراس خلیفہ وقت کا محاسبہ کیا جو اسوقت دنیاکی سب سے بڑی سلطنت کاحکمران تھا اور آپکی بات اسوقت تک سننے سے انکار کردیا جب تک آپ اس کا جواب نہ دےدیتے۔ آپ نے ایسی گستاخی پر اسے گردن زنی قرارنہیں دیا بلکہ آپکی جگہ آپکے بیٹے حضرت عبداللہؓ کھڑے ہوئے اورکہا۔چونکہ میرے والد کالباس انکے قد کی وجہ سے ایک چادرمیں تیارنہیں ہوسکتاتھالہذامیں نے اپنی چادر بھی اپنے والد محترم کودےدی۔یہ تھی اسلا می جمہوریت اور ایسا تھا عمرفاروق کادور۔اگر عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ایک عام آدمی سوال کر سکتا ہے تو خود کو ان کی وراثت کا امین سمجھنے والوں سے ہم عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ سرکاری اداروں کے فنڈذ کو ذاتی تشہیر کے لیے خرچ کرنے من پسندافراد کو نوازنے ،غیر ملکی اکاوئنٹس بھرنے ،جمہوری قدروں کو پامال کرتے ہوئے اپنی اولادوں اور رشتہ داروں کو اگلی نسلوں کے سر پہ سوار کرنے، ٹیکس اور بلز ادا نہ کرنے، پرائیویٹائزیشن کے نام پر منافع بخش اداروں کو بیچ کھانے، معصوم نہتے پاکستانیوں پر گولیاں چلوانے۔ ہارس ٹریڈنگ کا بازار گرم کرنے۔ ملکی سالمیت اور وقار داﺅ پر لگانے جیسے بے شمار گھناﺅنے جرائم پر خود کو احتساب کیلئے پیش کریں، ملک کے کونے کونے میں بہنے والے خون کا حساب دیں،جلتے ہوے سندھ ، محروم بلوچستان ،بھوک اور دہشت گردی سے مرتے ہوئے خیبر،افلاس و ننگ کی تصویر بالائی پنجاب ستم زدہ پاکستانیوں کی عدالت میں حاضر ہو جائیں۔ اورکم از کم اپنے جرائم کی معافی ہی مانگ لیں اس سے پہلے کہ احکم الحاکمیں کی عدالت سج جائے۔