پچھلی کئی دھائیوں سے اردو کالم نگاری کو دوام بخشنے‘ الفاظ کو نئی جہتوں میں پرونے‘ اور اپنی تحریروں میں عام فہم پنجابی‘ فارسی‘ گرمکھی اور انگریزی حروف کے استعمال سے قاری کے ذہن میں حس مزاح کی لطافت پیدا کرنے والے میرے کئی سینئر کالمسٹ دوست اور بزرگ جنہیں انکے وسیع تر تجربہ آج اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے… جہاں گھنٹے پون گھنٹے میں کالم ’’کڑکانا‘‘ اب انکے بائیں ہاتھ کا کمال ہے؟ ممکن ہے میری اس سوچ سے اتفاق نہ کر پائیں۔ مگر میرا یہ مشاہدہ ہے کہ اردو کالم نگاری میں انگلستان کے مقابلے میں جو زرخیزی اور لفظوں کو ادا کرنے کا ڈھنگ پاکستان میں دستیاب ہے وہ یہاں ممکن نہیں…؟؟
پاکستان میں اردو کالمسٹوں کے لئے موضوعات کی ایک وسیع فیلڈ موجود ہ… صوبائی اور علاقائی زبانیں‘ دیہی اور شہری سیاست طرز معاشرت‘ مغربی اور مشرقی تہذیب کا حسن‘ اقتصادی و معاشی صورت حال عام مگر گھمبیر قومی مسائل‘ جرائم‘ دہشت گردی غریب کیلئے سستے انصاف کا مسئلہ‘ کرپشن اور بے روزگاری کے مسائل کے علاوہ طبقاتی اونچ نیچ پر جتنا خوبصورتی سے وہ لکھتے ہیں انگلستان میں بیٹھ کر ایسا لکھنا اس لئے بھی دشوار ہے کہ انگلستان کے زیادہ تر اردو کالم نگاروں کا بنیادی مسئلہ تسلی بخش روزگار کا حصول ہے۔ محض اردو صحافت کے سہارے یہاں نان نفقہ چلانا آسان ہی نہیں… بلکہ اب ناممکن ہوتا چلا جا رہا ہے۔
اردو صحافت سے وابستہ یہاں کے بیشتر کالم نویسوں اور صحافیوں کو اپنے پیشے سے زیادہ فکر لاحق مکانوں پر لی گئی بھاری مورگیج اقساط اور بلوں کی ادائیگی پر ہے… اسی طرح لندن کی انڈور گراؤنڈ ٹرینوں میں دوران Peak House طویل سفر طے کرنے کے بعد تقاریب کی کوریج کیلئے سفری اخراجات بھی انہیں اب اپنی جیب سے ہی ادا کرنے پڑتے ہیں… بس یوں سمجھ لیجئے۔ کہ پیٹ سے اگر کپڑا اٹھائیں تو اپنا ہی ’’ٹڈ‘‘ ننگا کرنے والی بات ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ’’لینا دینا خاک محبت پاک‘‘ تو بے جا نہ ہو گا… البتہ ہمارے ایسے چند اردو کالم نگار دوست یہاں ضرور موجود ہیں جنہیں پاکستان میں اخبار کی نمائندگی کے حوالہ سے ایک قلیل سا معاوضہ تو ملتا ہے مگر آپ حیران ہوں گے کہ اس معاوضے سے کہیں زیادہ انکا خرچ انگلستان سے کمپوزنگ کے بعد بھجوائے کالم پر اٹھ جاتا ہے… مگر وہ کہتے ہیں ناں کہ ’’لت‘‘ کوئی بھی لگ جائے اتنی جلدی نہیں چھٹتی… اور یہی معاملہ اب ہمارے ان اردو کالم نگار دوستوں ہے۔ کالم نگاری اور فیچر رائٹنگ کے ساتھ ساتھ انہیں اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے… اپنی شاپنگ کا سائز بڑھانے… اور گاڑیوں کے اخراجات برداشت کرنے کے لئے دیگر ملازمتوں کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ برطانیہ میں اردو صحافت کا مستقبل چونکہ اب زیادہ روشن نہیں رہا۔ اس لئے ایسے حالات میں صرف اردو صحافتی پر اکتفا اپنے آپکو خوش فہمی میں رکھنے کی حد تک تو شاید درست ہو سکتا ہے مگر بریڈ‘ بٹر اور دیگر گھریلو اخراجات پورا کرنا ممکن نہں۔
ایک زمانہ تھا جب لندن سے 3 ڈیلی اور 3 اردو ویکل اخبارات شائع ہوا کرتے تھے۔ یہ ’’قلم دوات‘‘ سے کتابت اور ’’پلیٹوں‘‘ سے پرنٹنگ کا دور تھا… صحافیوں اور کالم نگاروں کی تعداد بھی کم تھی مگر ان اخبارات کی سرکولیشن ریکارڈ توڑ ہوا کرتی تھی اشتہارات کا حصول صحافیوں اور پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے اپنی مدد آپ کے تحت نامزد کارکنوں اور رہنماؤں سے تعلقات پے معنی تھا… مگر 85 کی دہائی کے بعد اردو صحافت کو مالی دشواریوں سے ایسا جھٹکا لگا کہ کئی یونائیٹڈ صحافیوں کو اپنے اخبارات بند کرنے پڑے اور یوں مہنگائی کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں آکر متعدد صحافیوں کو بے روزگار ہی نہ ہونا پڑا بیشتر صحافی ’’اردو صحافت‘‘ چھوڑا کر دیگر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہو گئے… اور ایسے صحافی آج بھی یہ سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ انگلستان میں اردو کے حوالہ سے جتنے علاقائی اخبار لندن‘ مانچسٹر‘ برمنگھم‘ لوٹن اور بریڈ فورڈ سے شائع ہو رہے ہیں وہ دیگر کسی اور مغربی ملک سے شائع نہیں ہوتے۔ ان میں بعض اخبارات ’’بائی لینگول‘‘ ’’ٹیبولائیڈ‘‘ بھی ہیں۔ مگر افسوس! صد افسوس! کہ جس نئی نسل کو آگے چل کر ایسے اخبارات کی نمائندگی کرتا ہے انہیں اردو زبان بولنا آتی ہے اور نہ ہی اردو لکھنی اور پڑھنی۔ جن بچوں نے اردو میں O لیول یا A لیول کر رکھے ہیں۔ وہ بلاجھجھک یہ کہتے ہیں کہ یہ Leveles تو انہوں نے صرف اپنے والدین کے اصرار پر کئے ہیں… ورنہ انکی مادری زبان تو انگریزی ہے۔ اس لئے اردو بولنے‘ اردو سیکھنے اور اردو لکھنے سے انہیں کیا لینا دینا… وہ برطانوی شہری ہیں اس لئے انگریزی کا ’’ایکسنٹ‘‘ انہیں ہر حال میں برطانوی ہی رکھنا ہے۔ جرنلسٹ بننا اگر انکا AIM ہوا تو برطانوی جرنلسٹ بننے کو ہو ترجیح دیں گے۔ دوسری جانب ہمارے وہ بزرگ اردو جرنلسٹ‘ کالمسٹ‘ شعرا اور ادیب جو 1970ء کی دہائی میں برطانیہ آئے ’’اردو صحافت‘‘ اور ’’اردو ادب‘‘ کو زندہ رکھنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کئے ہوئے ہیں۔ نامساعد حالات کے باوجود آج بھی ویکلی ’’پندرہ روزہ‘‘ اور ’’ماہنامے‘‘ شائع کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ہمارے بعض بزرگ صحافی دوست جن میں ’’اردو جرنلسٹ‘‘ کہلوانے کا جذبہ آج بھی بدرجہ اتم موجود ہے پرچے پے پرچے نکال رہے ہیں۔ ایسے بزرگ ہر بڑی پاکستانی تقریب میں بطور مینجنگ ایڈیٹر‘ چیف ایڈیٹر‘ ایڈیٹر‘ فوٹو گرافر اور بطور رپورٹر تنہا فرائض سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ معززین میں جب ’’مفت اخبار‘‘ تقسیم کرتے ہیں تو انہیں انکے اس مقدس پیشے کے بارے میں مزید کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اب یہ مشکل سوال کہ یہاں پروان چڑھنے والی برطانوی پاکستانی نسل نے ہی اردو سے جب منہ موڑ لیا ہے تو مستقبل میں ’’اردو صحافت‘‘ اور ’’اردو جرنلسٹ‘‘ کا اپنا مستقبل کی ہو گا۔ صحافتی حلقوں میں ایک معمہ بن چکا ہے۔