حکومت پاکستان نے ملک بھر کے ائیر پورٹس کی آﺅٹ سورسنگ کا اصولی فیصلہ کرلیا ہے اور غیر ملکی آپریٹرز کو ان ا ئیر پورٹس کاانتظام سونپنے کی تیاریاں جاری ہیں۔ قانونی تقاضے پورے کرنے کے مراحل پر کام ہورہا ہے‘ جس کے بعد ایک سورج ایسا طلوع ہوگا جب پاکستانی ائیر پورٹس کا انتظام غیر ملکی کمپنیوںکے ہاتھ میں جا چکا ہوگا۔ اس صورت حال کی وجہ سے ملک بھرکے ائیر پورٹس پر کام کرنے والے ملازمین میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے‘ انہیں اپنامستقبل غیریقینی نظر آرہا ہے کیونکہ آنے والی غیرملکی کمپنیوں کی جانب سے ان ملازمین کو اپنی پوزیشنوں پررکھا جائے گا یا نہیں‘ اس حوالے سے کوئی واضح بات نہیں بتائی جارہی۔ نجکاری کے موقع پربھی یقین دہانی تو کرائی جاتی ہے ‘ تسلی بھی دی جاتی ہے کہ کسی کو ملازمت سے نکالا یا فارغ نہیں کیاجائے گا لیکن پھروقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہوتا بالکل برعکس ہے۔ لہٰذا سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ملازمین اور افسران بھی پریشان ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ ان کے اہل خانہ اور پورے خاندان غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہیں کہ آخر ہونے کیا جارہا ہے اور کیوں ایسا ہورہاہے؟ یہ سوال اس لئے اٹھایا جارہا ہے کہ عام طورپر اس ادارے کا انتظام نجی شعبے کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے جو شعبہ یا ادارہ سرکاری طورپر اچھا چل نہ سکے یا مسلسل خسارے کا باعث بن رہا ہو یا اس کا انتظامی اورپیداواری ڈھانچہ تباہ حالی کا شکار ہوچکا ہے۔ جہاں تک سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اس کے زیر انتظام ائیر پورٹس کی کارکردگی اور مالی حالت کا تعلق ہے تو یہ حیران کن حد تک خوش آئند اور تسلی بخش بات ہے کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کی مالی حالت بھی مستحکم اور تسلی بخش ہے اوراس کے ائیر پورٹس مسلسل منافع بھی کمارہے ہیں ۔آج سے 3 دہائیاں قبل جب سول ایوی ایشن کو اتھارٹی بنایا گیا تھا جس میں ائیروائس مارشل خورشید مرزا کا بڑا دخل تھا اور انہوں نے اس ادارے کو اتھارٹی بنانے کے ساتھ ساتھ نئی ائیر لائنز کوپاکستان لانے اور جدیدائیر پورٹ بنانے کاوژن دیا اور عملی کام کا آغاز کیا تھا تو اس وقت سول ا یوی ایشن 1 ارب کا ادارہ تھا اور آج 2017ءمیں جب اس کے ائیر پورٹس کی آﺅٹ سورسنگ کا معاملہ طے پارہا ہے تو یہ ادارہ 57 ارب سے زائد کی مالی حیثیت کا مالک ہے اور اس کے اثاثے شاندار ہیں۔ اب اسکے پاس دنیا کے جدید ترین ائیرپورٹس اور ایوی ایشن سہولتوں سے آراستہ جدید ائیر پورٹس بھی ہیں اور بہترین ریڈارز‘ نیوی گیشن اوردیگر آلات بھی دستیاب ہیں۔ ان حالات میں جب کہ یہ ادارہ نہایت عمدگی سے کام کررہا ہے اور اس کے ائیر پورٹس کی پوری دنیا میں ایک ساکھ اور شہرت ہے۔ اسکا انتظام غیرملکی کمپنیوںکے حوالے کرنے پر عمومی حیرت کا اظہارکیا جارہاہے اورپوچھا جارہا ہے کہ آخر حکومت وقت کو اس ادارے کی آﺅٹ سورسنگ کی اتنی جلدی کیوں ہے اوروہ اسے غیرملکی ہاتھوں میں دینے کے لئے بے تاب اور بے قرار کیوں نظرآرہی ہے۔ کیا کوئی خفیہ سمجھوتہ کیا گیا ہے جس کے تحت ائیر پورٹس کا انتظام ہرقیمت پرغیرملکی آپریٹرز کے ہاتھ میں دینا لازمی ہوچکا ہے۔ اس حوالے سے قوم کو اصل حقائق جاننے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور حکومت وقت کی ذمہ داری بلکہ فرض ہے کہ وہ تمام حقائق سے عوام کو آگاہی دے کہ آخر اتنا اہم اور مالی طورپر مستحکم ادارہ حکومت خودکیوں نہیں چلانا چاہتی اور اس کے ائیر پورٹس کو جدید ترین سہولتوں سے آراستہ حالت میں غیرملکی آپریٹرز کوسونپنے کے درپے کیوں ہے؟
ملازمین بتاتے ہیں کہ حکومت کومالی سطح پربڑے قرضے حاصل کرنے اوربانڈز جاری کرتے وقت بھی ان ائیر پورٹس کی یاد آتی ہے کیونکہ ان ائیر پورٹس کو رہن رکھ کر ہی قرضے حاصل کئے جاتے ہیں یا ضمانت کے طورپر انہیں رکھوایا جاتا ہے۔ لاہور اور کراچی کے ائیر پورٹس اس مرحلے سے گزر چکے ہیں اور اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام آباد کا بالکل نیا اور زیرومیٹر ائیر پورٹ جس کا ابھی افتتاح ہونا ہے وہ پہلے دن سے ہی غیرملکی آپریٹرز کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا۔ یہ تو غیرملکی آپریٹرز کا جیک پاٹ لگنے کے مترادف ہوگا کہ ان کوسونے کی چڑیا تھما دی جائے گی۔ اربوں روپے کی لاگت سے تیار کیا جانے والا بالکل نیا ائیرپورٹ اسلام آباد اپنے زیر انتظام رکھنے کی بجائے غیرملکی آپریٹرز کو دینے کا فیصلہ کتنا دانشمندانہ اور درست ہے اس پردھواں دھار بحث جاری ہے۔
اس کے علاوہ ملتان کاائیر پورٹ اس وقت پاکستان کے بہترین اور خوبصورت ائیر پورٹس میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے جس کی تزئین و آرائش اور خوبصورتی و سجاوٹ پرموجودہ حکومت نے خصوصی توجہ دی اور وزیراعظم نوازشریف کی ذاتی دلچسپی کے باعث ہی یہ سب کچھ ممکن تھا اور انہوں نے نئی روایت بھی قائم کی تھی کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی اہم افتتاحی تقریب میں اپنے ہمراہ رکھا تھا اور ایک اچھا سیاسی پیغام بھی دیا تھا جسے سیاسی اور عوامی سطح پر بے حد سراہا بھی گیا تھا۔
ائیر پورٹس کی آﺅٹ سورسنگ اورملازمین کامستقبل؟
Mar 14, 2017