پاکستان پولیس فورس میں اعلیٰ ترقی کےلئے بورڈ کی سفارش پر اسٹیبلشمٹ ڈویژن نے گزشتہ روز اس گروپ میں گریڈ 20 سے گریڈ 21 میں ترقی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے جس کے مطابق 14 افسران کو ترقی دے دی گئی ہے۔ اس فہرست میں طارق مسعود یاسین‘ ڈاکٹر سید کلیم امام‘ محسن حسن بٹ‘ عباس ملک‘ سردار علی خان‘ صلاح الدین خان‘ اعجاز حسین شاہ‘ شعیب دستگیر‘ آفتاب احمد پٹھان‘ محمود عالم محسود‘ معظم جاہ انصاری‘ اظہر حمید کھوکھر‘ محمد اشرف‘ ڈاکٹرولی اللہ شامل ہیں۔ ترقی پانے والے چار افسران کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ اس لئے کہ وہ اپنی سروس میں مختلف حوالوں سے اسلام آباد میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ ان کی ذات اور شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے‘ چونکہ ترقی پانے والے یہ چاروں اصحاب اپنی ذات اور کردار میں بے مثال ہیں اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس فہرست میں شامل تمام دیگر احباب بھی ایسی ہی شخصیت اور کردار کے حامل ہیں۔ پولیس میں ترقی کےلئے معیار زیادہ کڑا اور بہتر ہونا چاہئے کیونکہ اس گروپ میں اگر ایک بھی غلط آدمی اوپر آجائے تو اس سے پورے کے پورے معاشرے میں انحطاط کا عمل تیز تر ہو جاتا ہے۔ اگر سول سروس کے دیگر شعبوں میں کوئی کمی بیشی ہو بھی جائے تو اثرات اتنے گہرے اور ناخوشگوار نہیں ہوتے جتنے پولیس سروس میں غلط افراد کے اعلیٰ منصب پر آنے سے اس سروس کے ساتھ ریاست اور معاشرے کو پہنچ سکتے ہیں۔
پاکستان میں پولیس کا نظام گزشتہ 30 سالوں سے انحطاط کا شکار رہا ہے اور اسکی بنیادی وجہ پولیس کو سیاست میں ملوث کرنا رہا ہے۔ برسراقتدار افراد نے گزشتہ دو تین دہائیوں سے اس عمل کو تیز کیا ہے اور پولیس جسے عوام کو انصاف اور ریلیف فراہم کرنا ہوتا ہے اپنے اصل منصب سے دور ہو گئی ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان میں دہشتگردی کے طوفان میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس میں کئی بار تیزی بھی آئی ہے۔ لیکن اس دور میں دہشتگردی کےخلاف جنگ میں افواج پاکستان کےساتھ ساتھ پولیس سروس نے بھی عوام میں اپنے اعتماد کو بہتر کیا ہے۔ اس سروس نے اپنی قربانیوں اور شہداءکے ذریعے اپنی عزت اور وقار میں اضافہ بھی کیا ہے لیکن اس امر کی ضرورت ہے کہ ریاست کو چلانے والے اس اہم ترین ادارے کا عوام میں اعتماد پوری طرح بحال کیا جائے۔ برسراقتدار طبقے اس حوالے سے محنتی‘ دیانت دار اور عوام دوست افسران کو ترقی دےکر اس میں اپنا م¶ثر کردار ادا کر سکتے ہیں ماضی میں انسپکٹر جنرل پولیس ترقی اور تعیناتی کےلئے صوابدیدی اختیارات رکھتے تھے لیکن اس اختیار کو آہستہ آہستہ وزرائے اعلیٰ نے استعمال کرنا شروع کیا جس سے اس نظام میں خرابیاں ابھرنی شروع ہو گئیں اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس میں بھرتی‘ ترقی اور تعیناتی کے اختیارات پولیس افسران کو ہی ہونے چاہئیں اور پھر ان سے جواب طلبی بھی اسی طرح سے ہونی چاہئے اگر ایس ایچ او سیاسی بنیادوں پر تعینات ہوں تو ان سے جواب طلبی مناسب بھی نہیں ہے۔ طارق مسعود یاسین اس وقت اسلام آباد میں انسپکٹر جنرل پولیس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پاکستان پولیس میں اگر اس طرح کے افراد زیادہ تعداد میں ہوں تو نہ صرف جرائم کو کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ پولیس کے امیج اور چہرے کو روشن کرنے میں بھی زیادہ مدد مل سکتی ہے۔ طارق مسعود یاسین نے اپنے موبائل نمبر کی کثرت سے تشہیر کر رکھی ہے اور اس موبائل پر ان سے جو بھی رابطہ کرتا ہے اسکی مدد بھی کرتے ہیں اور اسکے مسئلہ کے حل کےلئے پولیس کو متحرک کرنے میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے پیشتر کراچی اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ خوشاب‘ جھنگ‘ اوکاڑہ میں اپنے قیام کو اکثر یاد کرتے ہیں۔محسن حسن بٹ ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر میں خدمات سرانجام دے رہے تھے ترقی کے بعد ان کا تباد لہ پنجاب میں کر دیا گیا ہے خاموش طبع‘ مخلص‘ دیانت دار اور دوستوں کے دوست ہیں‘ بہت کم دوست بناتے ہیں۔ دوستوں کےلئے ہمیشہ دست تعاون کھلا رکھتے ہیں۔ اسلام آباد میں کئی اہم مقامات پر فائز رہے ہیں۔ دوستی میں چھوٹے اور بڑے کی تمیز نہیں کرتے یقیناً پولیس میں اہم منصب پر فائز ہو کر عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھنے کے مشن پر آگے بڑھتے رہیں گے۔
ڈاکٹر سید کلیم امام پانچ سال پیشتر اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل پولیس رہ چکے ہیں۔ اسکے علاوہ راولپنڈی میں بھی پولیس افسر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انکی ذات راولپنڈی اسلام آباد میں جانی پہچانی ہے۔ سوڈان میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ انکی ترقی پر میں نے ان سے کہا کہ آپ پہلے سے اتنی اہم پوزیشن پر رہ چکے ہیں پہلے سے لگتا ہے کہ آپ اس وقت 22 گریڈ میں ہیں۔ انہوں نے یہ ترقی اپنی محنت دیانت دلیری خلوص اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر حاصل کی ہے۔
عباس ملک بھی ترقی اور پنجاب میں تبادلہ کے بعد تعیناتی کے منتظر ہیں۔ عباس ملک پولیس کے ایسے افسر ہیں جنہوں نے کبھی بھی کسی اہم منصب کے حصول کےلئے نہ کبھی خواہش رکھی اور نہ ہی کوشش کی۔ جہاں حکومت نے مناسب سمجھا خدمات سرانجام دیتے رہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے اسلام آباد میں مختلف حوالوں سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔کیپٹن ظفر اقبال شمالی علاقہ جات میں انسپکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ دوستوں کو توقع تھی کہ ان کی بھی ترقی ہو گی جبکہ بورڈ نے انکی ترقی کی سفارش بھی کی تھی لیکن ان کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا اور ان کو او ایس ڈی بھی بنا دیا گیا ہے۔ جس کو یقینی طور پر پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا۔ کیپٹن ظفر اقبال پولیس گروپ میں اعلیٰ پیشہ وارانہ خدمات کی بنا پر قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔طارق مسعود یاسین‘ محسن حسن بٹ‘ ڈاکٹر سید کلیم امام‘ عباس ملک پاکستان پولیس کے ماتھے کا جھومر ہیں اور ان کی اعلیٰ خدمات کی بدولت پولیس عوام میں بھی اپنی پذیرائی حاصل کرنے کے مشن میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکتی ہے۔
پولیس سروس میں اعلیٰ ترقیاں
Mar 14, 2017