کہتے ہیں جنکے گھر دانے اسکے کملے بھی سیانے۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ گندم کی موجودہ صورتحال جو ملک میں گذشتہ تین برسوں سے چل رہی ہے اس کو غلط ثابت کر رہی ہے۔ سیاسی حکومتیں انسانوں کو بہبود کا خیال کرتے کرتے ایسا راستہ چنتے ہیں جو تباہی کی طرف جاتا ہے۔ کسانوں کو سپورٹ کرنے کے دنیا میں بے شمار طریقے ہیں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت نے گندم کا ریٹ 625 روپے فی من سے بڑھا کر 1200 روپے فی من کر دیا جبکہ پیپلز پارٹی کو اقتدار سے باہر ہوئے کئی سال بیت گئے مگر عالمی مارکیٹ میں گندم کی قیمت آج بھی 700 روپے سے 800 روپے فی من ہے اور ہم خرید بھی 1300 روپے فی من میں رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین سال سے اضافی گندم سٹاکس بڑھتے جا رہے ہیں اور ان کی کوالٹی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ گوداموں کی استعداد ہے نہیں اور گنجیوں میں گندم لگا کر ایک تو اس پر ہر قسم کی قدرتی و مصنوعی بارش کا چھڑکاﺅ کرایا جا رہا ہے تا کہ وزن زیادہ ہو اور کسانوں سے خرید میں لوٹ مار کے بعد سٹاکس میں سے بھی لوٹ مار کی جا سکے۔ آج بھی پنجاب کے پاس 31 لاکھ ٹن گندم موجود ہے اور جو گزشتہ برس 20 لاکھ ٹن تھی۔ محکمے ترقی کرتے ہیں ملک ترقی کرتے ہیں اپنی بہتر پالیسیوں کی بدولت مگر یہاں پالیسیاں مرضی کی بنا کر مرضی کے نتائج حاصل کئے جاتے ہیں۔ اگر کوئی 30 لاکھ ٹن گندم جو فالتو ہے پنجاب میں اور 25 لاکھ ٹن اضافی گندم جو پاسکو اور صوبہ سندھ کے پاس موجود ہے کا حساب لگائے کہ اس سٹاک پہ اضافی اخراجات کا حساب لگائے تو معلوم ہو گا کہ اربوں روپے کی گندم بغیر کسی وجہ کے سنبھالنے پر اربوں روپے اخراجات بھی آ چکے ہیں اور جو تین سال اور 2 سال کی گندم ہے وہ کوالٹی کے لحاظ سے بھی ناقابل استعمال کہلاتی ہے۔ اگر کسی افسر سے بات کی جائے تو وہ کہتا ہے کہ ہمیں جو ٹارگٹ ملتا ہے ہم اتنی ہی گندم خریدتے ہیں مگر گندم کی Dispose نہ ہونے کے بارے میں اسکے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ یعنی انہیں پرواہ نہیں کہ آئندہ فصل بھی بھرپور آنے والی ہے اور جتنی گندم خریدتی ہے اتنی کو پہلے فروخت تو کر دیں مگر ایسا نہیں ہو رہا اور یہ سٹاکس بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ سٹاکس بڑھنے کی وجہ نا اہلی کے سوا کچھ بھی نہیں مگر وزیراعلیٰ پنجاب کو Rosy Summaries حقیقت سے دور کرنے والے یہ لوگ پالیسی منظور کروانے کے بعد خود بھی عیش کرتے ہیں اور ایک خاص طبقہ کو بھی سہارا بنا لیتے ہیں (تو میرا فائدہ دیکھ میں تیرا فائدہ دیکھتا ہوں) گورنمنٹ کا نقصان بھلے ہوتا رہے۔ جی ہاں پنجاب کی گندم اور سندھ کی گندم کو Dispose کرنے کا مسئلہ ایسا ہے جو سکینڈل کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایک فریق جس کا تعلق انڈسٹری سے ہے اس سے لیٹر پیڈ پر مرضی کی تجویز لکھوا کر اس پر غور کر کے سمری بنا دی جاتی ہے اور اسے وفاقی حکومت ہو یا صوبائی منظوری کے لئے دونوں فریق مل جل کر زور لگا دیتے ہیں اور جب وہ منظور ہو جائے تو اس کا نام جو سامنے آتا ہے وہ گندم کی Rebate ایکسپورٹ پالیسی ہوتا ہے۔ پھر اسکا پراسیس سنا کر اپنے اپنے حصے بنائے جاتے ہیں گویا فل گیم بنا کر بعض ایسے لوگوں کو گندم اٹھوائی جاتی ہے جو اسی مارکیٹ میں گندم فروخت کر کے دہرا فائدہ حاصل کرتے ہیں یعنی گندم غلط جگہ بیچنے کا اور بعد میں Rebate حاصل کرنے کا۔ گویا ثابت یہ ہوا کہ اضافی سٹاکس کو فروخت نہ کرنا ہی ان دونوں فریقین کے حق میں ہے۔ ورنہ ایکسپورٹ کا جو ایک مجوزہ طریقہ کار پہلے سے موجود ہے ملکی اداروں سے کام لو۔ ٹریڈنگ کارپوریشن کے ذریعے ایکسپورٹ کرو۔ نقصان پر فروخت کرو مگر گندم تو حقیقت میں باہر جائے، جگہ خالی ہو اور نئی فصل بھرپور انداز میں خریدنے کی تیاری ہو مگر شاید سٹاکس پڑے رہنے کا ایک فائدہ غریب اہل کاروں کو بھی ہوتا ہے۔ علم نفسیات میں کہتے ہیں کہ جب نئی یادداشت بنتی ہے تو پرانی بھول جاتی ہے اسی طرح جب 30 لاکھ ٹن پرانے سٹاکس میں 40 لاکھ ٹن نئی خریدی ہوئی گندم آ جائے گی تو چھوٹے اہل کاروں کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ 30 لاکھ ٹن میں سے ہر سینٹر سے 5 سے دس ہزار ٹن گندم چوری کر کے فروخت دیتے ہیں اس طرح کون اتنی Stocks کو گنے۔ بہر حال بات کسان سے شروع ہوئی موجودہ حکومت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ہماری تجویز پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے اور 341 ارب اور 200 ارب کے اخراجات کسانوں کو کھاد ، بیج، ٹریکٹر اور بجلی وغیرہ کی قیمتوں میں کمی کی شکل میں دیئے گئے ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ گندم کے نرخ مزید نہ بڑھائے جائیں اور انہیں منجمد کر کے اوپر والی پالیسی پر عمل درآمد کیا جائے میری وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان سے گزارش ہو گی کہ وہ ان معاملات کا نوٹس لیں۔ ترقی کی راہ میں اس قسم کی لوٹ مار کو نظر انداز مت کریں اور اس جعلی ریٹ پالیسی کے منفی اثرات پر غور کریں۔ حقیقی ایکسپورٹ آپکے ہاتھ سے نکل گئی ۔ افغانستان کی مارکیٹ پر انڈیا ، ایران اور قازقستان کا قبضہ ہو گیا اور گندم کے معاملہ میں آپ تنہا ہو گئے۔ عالمی برادری سے کٹ گئے جبکہ ملک میں لگی 1450 فلور ملیں شادی پلازوں میں تبدیل ہونے لگیں ہیں۔ اگر حقیقی معنوں میں آٹے کو ایکسپورٹ کیا جاتا تو لوگوں کو روزگار ملتا اب جو فلور ملز بند ہیں وہ لوگوں کو تیزی سے بے روزگار کر رہی ہیں۔ یہ سارے منفی اثرات دیکھنا حکومتوں کا کام ہے۔ ہم خوش ہیں کہ ملک میاں نواز شریف کی قیادت میں اور میاں شہباز شریف کی انتھک محنت کے نتیجہ میں ترقی کر رہا ہے مگر ادھر بھی نظر کو دوڑائیں اور یہ جو لوٹ مار کی رقم ہے اس سے سکول کالج ہسپتال بنا دیں۔
گندم کے بڑھتے ہوئے سٹاکس ، ناکامی یا کامیابی
Mar 14, 2017