’’انٹرسٹ ربا‘‘ کی تعریف پہلے‘ عدالتی دائرہ اختیار کا تعین بعد میں ہو گا‘ شریعت کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) وفاقی شرعی عدالت نے ملک بھر سے سودی نظام کے خاتمے کے لیے دائر مقدمات کی سماعت کے دوران آبزرویش دی ہے کہ پہلے ’’ رباہ اور انٹرسٹ‘‘ کی تعریف کی جائے گی اس کے بعد ان مقدمات کے سماعت بارے عدالت کے دائرہ اختیارکا تعین کیا جائے گا تاکہ اس بنیاد پر دوبارہ کیس ریمانڈ ہوکر واپس نہ آسکے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ ان الفاظ کی کہیں بھی تعریف نہیں کی گئی اس لیے مکمل تعریف سامنے آنے تک ہم عدالت کے دائرہ اختیار کا تعین نہیں کر سکیں گے ۔ چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت جسٹس ریاض احمد خان کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان، جسٹس شیخ نجم الحسن اور جسٹس ظہور احمد شیرانی پر مشتمل چار رکنی بینچ نے مقدمات کی سماعت کا آغاز کیا تو جماعت اسلامی پاکستان کے وکیل قیصر امام نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ شرعی عدالت میں کوئی آئینی شق چیلنج نہیں کی گئی اس لیے عدالت یہ مقدمہ سننے کا اختیار رکھتی ہے۔ انہوں نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی طرف سے سود کے خلاف پاس کیا گیا ایک ایکٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے اس قانون کے ذریعے پابندی عائد کر دی ہے کہ اب قرضوں پر سود لیا یا دیا نہیں جا سکے گا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس قانون پر وہاں عمل تو نہیں ہو رہا ۔ سودی نظام کی وجہ سے پورے صوبے میں تباہی مچی ہوئی ہے۔ اس دوران جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر فرید پراچہ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یہ کیس ریمانڈ کر کے عدالت کے پاس بھجوایا ہے جس سے عدالتی دائرہ اختیار واضح ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سیاست کی بات کر رہے ہیں یہاں سیاست پر بات نہ کی جائے۔ آپ دلائل آئین و قانون کے دائرے تک محدود رکھیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...