چھٹی مردم شماری کا فوج کی زیرنگرانی کل آغاز، دو مراحل میں مکمل ہوگی

لاہور ، کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک+ آن لائن+ نوائے وقت رپورٹ) پاکستان 19 سال بعد ہونے والی مردم شماری کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ 2008ء سے التواء کا شکار چھٹی مردم و خانہ شماری کا آغاز کل سے پاک فوج کے زیرنگرانی ہوگا جس کا اختتام 25 مئی کو ہوگا جبکہ یہ عمل دو مراحل میں مکمل کیا جائیگا۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک میں یہ مردم شماری کئی حوالوں سے اہمیت کی حامل ہے۔ خواجہ سرا برادری کے مطابق پاکستان کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مردم شماری میں مخنث افراد کو علیحدہ سے شمار کیا جائے گا۔ عدالتی فیصلہ کے بعد فارمز کی چھپائی کا عمل مکمل ہوچکا ہے جبکہ مردم شماری کیلئے تعینات افراد کو بھی بتایا جا چکا ہے کہ سروے میں شامل افراد کے لئے جنس کے خانے میں تین آپشنز یعنی مرد، خاتون یا مخنث موجود ہوں گے۔کثیرالنسلی افراد کے مسکن پاکستان میں زبان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے تاہم اس مردم شماری میں ملک میں بولی اور سمجھی جانے والی تقریباً 70 زبانوں میں سے صرف 9 زبانوں کو شامل کیا جائے گا، جو ملک میں مقیم کئی برادریوں کے لیے مایوس کن ہے۔ مردم شماری میں قلیل آبادی والے علاقے گلگت بلتستان کی کسی علاقائی زبان کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی گجراتی کو شامل کیا گیا ہے جو بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے بیشتر مسلمانوں کی زبان ہے۔ گجراتی بولنے والے ان مسلمانوں کا خیال ہے کہ اگر زبان کو شناخت نہیں ملتی تو ان کی مادری زبان گمنام ہوسکتی ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق چھٹی مردم شماری ملک میں موجود اقلیتی برادری بالخصوص عیسائیوں اور ہندوؤں کی حقیقی تعداد سامنے لائے گی۔ ان اندازوں کے مطابق پاکستان میں عیسائیوں کی تعداد 20 لاکھ سے 1 کروڑ کے درمیان جبکہ ہندو آبادی 25 لاکھ سے 45 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ مردم شماری کے دوران شہری خود کو مسلمان، عیسائی، ہندو یا احمدی ہونے کی حیثیت سے بیان کرسکیں گے۔ ان چار انتخابات کے علاوہ انہیں خود کو 'شیڈولڈ طبقے کا رکن' بیان کرنے کا آپشن حاصل ہوگا جس میں پسماندہ اور نچلی ذات کی ہندو برادری کے افراد و دیگر شامل ہوں گے۔ خیال رہے کہ مردم شماری میں سکھ، پارسی یا بہائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے شمار کے لئے کوئی علیحدہ خانہ موجود نہیں۔ مردم شماری کے فارم کے ایک خانے میں شہریوں سے یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ ان کے گھر میں موجود ٹوائلٹس کی تعداد کتنی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی 40 فیصد آبادی کو ضروری حاجات کے لئے ٹوائلٹ میسر نہیں جو صحت کے بیشتر مسائل کی وجہ ہے۔ مردم شماری میں قومیت کے خانے میں شہریوں کے لئے دو آپشنز پاکستانی یا غیر ملکی موجود ہوں گے۔ تاہم اس حوالے سے پاکستانی فوج جو اس مردم شماری کے ساتھ متوازن شماری سرانجام دے گی، وہ قومیت کے حوالے سے مزید باریک بینی سے جائزہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی اہم وجہ ملک میں موجود افغان مہاجرین کی بڑی تعداد ہے۔ کئی مقامی افراد خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ افغان شہری مقامی افراد کی گنتی میں آجائیں گے جس سے اعداد و شمار پشتون افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب بنیں گے اور نتیجتاً پشتون سیاسی جماعتوں کو اس کا فائدہ ہوگا۔ دوسری جانب اندازاً 60 لاکھ پاکستانی جو بیرون ملک ملازم ہیں وہ مردم شماری کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔ اندرون ملک ہجرت کے حوالے سے بھی کوئی معلومات اکٹھی نہیں کی جائیں گی، جو درحقیقت کسی صوبے کی سیاسی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لئے ضروری ہے، جہاں معاشی وجوہات کی باعث لوگوں کی بڑی تعداد منتقل ہوئی۔دوسری طرف سندھ حکومت نے 15 مارچ سے شروع ہونے والی مردم شمار ی میں سندھ کی آبادی کم کرنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے وفاقی حکومت اور محکمہ شماریات سے مطالبہ کیا ہے کہ گھر شماری اور مردم شماری کا تعداد راز میں رکھنے کے بجائے فوری طور پر عوام کے سامنے ظاہر کی جائے اور مردم شماری کے فارم کی فوٹو یا کاربن کاپی عوام کو فراہم کیا جائے ۔یہ مطالبہ سندھ کے سینئر وزیر نثار احمد کھوڑو نے پیر کو سندھ اسمبلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔نثاراحمد کھوڑو نے کہا کہ ہم مردم شماری کو ملتوی نہیں کرنا چاہتے تاہم وفاقی حکومت گھر شماری اور مردم شماری کاتعداد راز میں رکھ کر مردم شماری کے عمل کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہی ہے اس لیئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گھر شماری اور مردم شماری کا تعداد فوری طور پر عوام کے سامنے ظاہر کیا جائے ۔انھوںنے کہا کہ سینسزکمیشن کی جانب سے مردم شماری کے فارم کسی بھی شخص کو نہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے جس وجہ سے سندھ کے لوگوں کے فارم گم ہونے کا خدشہ ہے اس لئے جن لوگوں کے نام فارم میں لکھے جائے اس فارم کی فوٹو کاپی یا کاربن کاپی اور رسید فوری طور منسلکہ شخص کو فراہم کی جائے تاکہ جس کا فارم گم ہوجائے وہ مردم شماری میں شمار ہونے کے لیے کلیم کرسکے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں خدشہ ہے کہ وفاقی حکومت سندھ کی مردم شماری کم ظاہر کرے گی اس لئے مردم شماری کے متعلق ڈیٹا کو راز میں رکھا جارہا ہے اور وفاقی حکومت کے اس عمل سے مردم شماری کی شفافیت پر سوال اٹھیں گے ۔ انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت مردم شماری کے ڈیٹا کو راز میں رکھ کر 18سال کے بعد ہونے والی مردم شماری کو سوالیہ نشان بنانے کی کوشش نہ کرے اور ایسی نوبت نہ لائی جائے جوسب مردم شماری کے نتائج قبول کرنے سے انکار کریں؟ انھوں نے کہا کہ ایک بلاک میں ایک ہزار گھر بھی ہیں اس کا بھی واضع طریقہ ہونا چاہئے اور سٹاف کو بھی بڑھانا چاہئے۔ مردم شماری کیلئے کراچی کے 14 علاقوں کو حساس ترین قرار دیدیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حساس ترین علاقوں کی نشاندہی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے کی۔ شہر کے 5 اضلاع کے علاقے حساس ترین ہی۔ ضلع غربی میں بلدیہ ٹاؤن‘ منگھو پیر‘ کٹی پہاڑی اور سلطان آباد حساس ہیں۔ ضلع جنوبی میں لیاری اور شیریں جناح کالونی کو حساس ترین قرار دیا گیا ہے۔ ضلع شرقی میں پہلوان گوٹھ‘ آصف سکوائر اور جنت گل کالونی کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ ملیر کا علاقہ گلشن بونیر کورنگی کے علاقے چکر گوٹھ کو حساس ترین قرار دیا گیا۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...