اسلام آباد (وقائع نگار+ آئی این پی) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں کے خلاف مواد کی تشہیر کے مقدمے کی سماعت 17مارچ تک ملتوی کردی ہے۔ عدالت عالیہ نے وزارت اطلاعات کو ہدایت کی ہے کہ وہ عوام اور میڈیا کو آرٹیکل 19 کے بارے میں آگاہ کرے۔ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر روکنے سے متعلق ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت کو آگاہ کیا کہ فیس بْک کے تین پیجز بلاک کر دیے گئے ہیں اور چھ ویب سائٹس زیرنگرانی ہیں ، معاملہ حساس نوعیت کا ہے احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ انٹرنیشنل لا کے تحت ایک پیٹیشن بھی تیار کررہے ہیں۔ مواد اس قدر گستاخانہ نوعیت کا ہے کہ تفتیشی افسر بھی اسے پوری طرح نہیں پڑھ سکتا‘ اشتہار بھی دیا گیا ہے‘ فیس بک سے متعلق اختیارات بہت محدود ہے جس میں فیس بک کو فریق بنایا جائے گا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ جس نے توہین رسالت کی ہے وہ کسی صورت بھی قانون کے شکنجے سے بچ نہیں سکتا، تاہم اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کسی بے گناہ کو توہین رسالت کا مرتکب نہ بنا دیا جائے۔ انہوں نے ڈائریکٹر ایف آئی اے اور آئی جی اسلام آباد کو ہدایت کی کہ گستاخان کی نشاندہی کرنے میں سخت احتیاط برتی جائے۔ سیکرٹری آئی ٹی نے عدالت کو بتایا کہ ماہرین پر مشتمل ایک طویل میٹنگ کرکے جائزہ لیا گیا ہے کچھ ٹی وی شوز والے ایسا تاثر دے رہے ہیں شاید کچھ نہیں ہورہا۔ جسٹس شوکت نے کہا کہ ٹی وی شو کی فکر نہ کریں خبر بیچنے کی خاطر ناموس بیچنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔کچھ میڈیا والوں کو تو یہ بھی اعتراض ہے کہ میرے آنسو کیوں نکلے۔ ڈائریکٹرجنرل آئی ٹی نے بتایا کہ میڈیا کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنانے کے لئے پیمرا کو خط لکھا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز کہا کہ کچھ میڈیا والے آزادی اظہار رائے کو غلط انداز میں پیش کررہے ہیں۔ آئین سے انحراف آئین شکنی کے زمرے میں آتا ہے۔ میڈیا کے دانشوروں کا خیال ہے کہ کسی بھی کاروائی سے قبل ان سے پوچھا جائے۔ میڈیا اور علما سے خصوصی درخواست ہے میرے حق میں بھی کوئی مہم نہ چلائیں۔ جسٹس شوکت نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر نے میرے بارے میں جو کچھ کہا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاثر دیا جارہا ہے کہ شائد میرے خلاف زیر سماعت ریفرنس کی وجہ سے ایسا کرہا ہوں۔ اعلانیہ کہتا ہوں کہ اگر اس کے لئے مجھے عہدہ بھی قربان کرنا پڑے تو کوئی پروا نہیں اگر مجھے کوئی خطیب یا امام مسجد کہتا ہے تواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کچھ میڈیا والے تو ہوش میں بھی نہیں ہوتے اور مفکر بنے ہوتے ہیں ٹاک شوز کرنے والے آئین کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ انسپکٹرجنرل پولیس اسلام آباد طارق مسعود نے عدالت کو بتایا کہ معاملہ حساس ہونے کی وجہ سے احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ معاملہ حساس ضرور ہے لیکن اس میں کچھ تاخیر ضرور ہوئی ہے۔ میں برملا کہتا ہوں کہ میرے خلاف منفی کمپین جاری رکھیں اس سے میرے درجات بلند ہوں گے۔ آئندہ ہر اینکر‘ گیسٹ‘ مالک اور پروڈیوسر بیان حلفی دیں گے کہ وہ آرٹیکل انیس کے پابند ہوں گے جیّدعلما کرام‘ مفکرین اور تنقید کرنے والے میڈیا کو بھی مدعو کریں گے ایسا حکم دیں گے کہ آئندہ کسی کو ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔ میں ٹرائل کے لئے حاضر ہوں اور بے شک میرا ٹرائل قذافی سٹیڈیم میں کرلیں۔آئی این پی کے مطابق ڈائریکٹر ایف آئی اے مظہر الحق کاکا خیل نے کہا کہ تین متنازعہ ویب سائٹ کے علاوہ چھ اور ویب سائٹس کی بھی نشاندہی کی ہے۔ فیس بک کو نوٹس بھیجا ہے۔ فیس بک نے نوٹس ملنے کی تصدیق بھی کی ۔ اگر کسی کے پاس کوئی معلومات ہیں تو ہمیں آگاہ کرے۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے نے کہا کہ عالمی قوانین کے تحت پٹیشن تیار کرکے عالمی عدالت میں جانے پر بھی غور کررہے ہیں۔ سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ فیس بک انتظامیہ سے رابطہ کیا گیا ہے وہ تعاون کر رہے ہیں۔ 70 متنازعہ بیجز بند کر دئیے گئے ہیں‘ ایک ہفتے میں ذمہ داروں کا تعین کر لیں گے۔ نیشن رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کے سربراہ کو ہدایت کی وہ کچھ بلاگرز کے ملک سے باہر جانے سے متعلق رپورٹ پیش کریں ادھر ہائیکورٹ ملتان بینچ کے جسٹس محمد قاسم خان نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے خلاف کارروائی کی درخواست پر ایف آئی اے ملتان کو مقدمہ درج کرکے 20 مارچ کورپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ فاضل جج اس موقع پر باربارآبدیدہ ہوگئے اور ریمارکس دئیے کہ توہین رسالت کسی مسلمان توکیا کسی پاکستانی کا بھی ایجنڈا نہیں ہوسکتاہے۔ اس ملک میں تمام مذاہب کے افراد ایک دوسرے کی قوت بن کرزندگی گذار رہے ہیں اورسوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد غیرملکی مفادات کا کھیل ہے۔ عدالت نے مزید قراردیاکہ تاہم اس معاملہ میں بعض اداروں کے زمہ داروں کی غفلت شامل ہے۔ اگر نفرت آمیز رویوں کو آزادی کا نام دیا جاتا ہے تو یہ نہ تو آزادی ہے اورنہ ہی اس کو کلچر کہا جاسکتا ہے، اس خطے کے رہنے والوں کا کلچر سرکارِ دوعالم ؐ کی تعظیم ہے۔
فیس بک سے رابطہ کرلیا 3 پیجز بلاک 6 ویب سائٹس زیرنگرانی ہیں
Mar 14, 2017