اچھی خبر یہ ہے کہ حکومتِ پاکستا ن نے پاکستان لوکو موٹو فیکٹری، رسالپورکو دوبارہ فعال اور اپ ڈیٹ کرنے کے بارے میں سوچنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ شکر ہے ارادہ کر لیا ہے اگر اب بھی نہ سوچتے تو سوچئیے ہم آپ حکومت کا کیا بگاڑ سکتے تھے۔ مقصد یہ ہے کہ ملک میں ریلوے کو ماڈرن کیا جائے! خیر۔ 1992 میں شروع کی گئی اس فیکٹری میں سالانہ ۲۵ ڈیزل اور الیکٹرک انجن بننا تھے مگر نادیدہ وجوہات کی بنا پر اس سے دگنی تعداد میں یعنی پچاس انجن(جو اس فیکٹری کی حتمی استعدادِ کار تھی) کے بجائے اس کی کارکردگی گھٹتی گئی۔اب ایشین ترقیاتی بنک سے معاونت حاصل کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے اور ۱۹۹۳ سے اب تک صرف ۱۰۲ ،انجن تیار کرنے والی فیکٹری شاید بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر ے۔ دراصل یہ بھی پری پول الیکشن رگنگ کا ایک حربہ ہے۔ کہ لوگوں پر احسان جتایا جائے کہ دیکھو ہم نے اس کار خانے کو پھر سے فعال کر دیا۔ایک اور اچھی خبر یہ ہے کہ چند روز پہلے کوئلے سے لدی جو مال گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی تھی اور پچاس ساٹھ گھنٹے ہزار ہا بل کہ لکھو کھا انسانوں کو ایک عذاب میں مبتلا کر چکی تھی وہ اب پٹڑی پر چڑھ چکی ہے اور لاکھوں پاکستانیوں نے خواجہ سعد رفیق کو جھولیاں اُٹھا اُٹھا کر جو بد دعائیں دی تھیں اُن کا سلسلہ رُک گیا ہے۔ اس میں مزے کی بات یہ تھی کہ میڈیا جو سری دیوی کے دیہانت پر ہفتوں بین ڈالتا رہا تھا، اُس ’باخبر‘ میڈیا کو اس خبر کی ذرا سی ہی بھنک پڑی تھی ۔ پھر ایک سکوت طاری ہو گیا تھا ۔ لوگوں کو اس مال گاڑی کے حادثے سے کیا کیا نقصانات ہوئے ،کیسی کس مپرسی کے عالم میں کئی ٹرینوں کے مسافر بھوکے پیاسے اور لاچار خواجہ سعد رفیق کو بد دعائیں دیتے رہے ،اُس کی ڈانڈی پیٹنے والا کوئی نہ تھا! غالباً یہ بھی لفافے کا کمال تھا کہ خبر میڈیا کے لیے شجرِ ممنوعہ بنی رہی۔ حکومت نے اپنے پیاروں کو وافر مقدار میں ترقیاتی فنڈز( یعنی سیاسی رشوت ) مہیا کر دیے ہیں تاکہ وہ اپنے اپنے حلقے میں کوئی چھوٹا موٹا کام کروا کر لوگوں ،یعنی دشمنوں کا منہ بند کر سکیں کہ پانچ’ سالا‘ اقتدار میں کوئی عوامی کام ہی نہیں کیا!کراچی کیا لاہور کیا جدھر دیکھو سڑکیں ، پُل اُدھڑ رہے ہیں کہ جاتے جاتے جتنا بھی ہو سکے پبلک کو تنگی دے لیں ’کس کو پتا ہے کل آئے کہ نہ آئے‘۔ساتھ ہی ٹھیکیداروں سے حاصل وصول کر کے اُن کو بھی فارغ کریں اور خود بھی فراغت پا جائیں اور فنڈ شنڈ ٹھکانے لگ جائیں۔جب سڑکیں اُدھڑتی ہیں تو مہینوں ’سالوں‘بیکسی اور بے بسی کی حالت میںا ُدھڑی پڑی رہتیں ہیں۔ اُن کو لیول کرنے کا کام ،بجائے ٹھیکیدا ر کو تکلیف دینے کے، عوام کرتے ہیں۔ عوام اپنی ہر قسم کی گاڑیوں کا ستیاناس کر کے ٹھیکیدار کی مشکل آسان کرتے رہتے ہیں اور سرکاری اہلکار اُس بچت میں سے بھی اپنا حصہ ڈاٹتے رہتے ہیں۔ ع
کیا کیا نرالے ڈھنگ ہیں اس لُوٹ مار کے
پھر الیکشن کمشن کی ملی بھگت سے انتخابی حلقوں کو اپنی مرضی کے مطابق کیا جاتا ہے تا کہ مرضی کے ووٹر اپنے حلقوں کے دائرے میں آ جائیں۔اب جلسوں پہ جلسے ہوں گے اور پٹواریوں، پولیس اور گُلو بٹوں کے ذریعے زیادہ سے زیادہ عوام مہیا کیے جاتے ہیں تا کہ رعب پڑے کہ ہمارے حمایتی بڑی تعداد میں ہیں اپنے متوالے اور جیالے پولنگ بوتھس پر لگائے جاتے ہیں اور پھر ٹھپے لگا لگا کر عددی برتری حاصل کی جاتی ہے۔الیکشن والے دن ووٹوں کے ڈبوں کی بھی ہیرا پھیری ہوتی ہے جیسی کہ پچھلے انتخابات میں کی گئی۔مطلب یہ ہے کہ یا بے ایمانی تیرا ہی آسرا۔ یوں یہ اُن اسمبلیوں میں براجمان ہوتے ہیں جن کی عزت کا واویلا اور شور و غوغا یہ سب سیاسی کھلاڑی مچاتے رہتے ہیں۔خود ان سیاسیوں کی عوامی عزت کا یہ حال ہے کہ جامعہ نعیمیہ میں خودنواز شریف پر عین اُس وقت جُوتا مارا گیا جب وہ پوڈیم پر خطاب فرمانے تشریف لائے۔ خطاب گیا جہنم میں یہاں تو استقبال ہی جُوتے کی نظر ہو گیا ۔ سنا ہے میاں صاحب باز نہ آئے اور جہاں اُس جوتا مارنے والے کو کئی مولوی عین مسجد کے اندر ’’چور کی مار‘‘ مار رہے تھے اور اس بچارے کا خون مسجد کے اندر پیروں تلے روندا جا رہا تھا میاں صاحب ڈھٹائی کے ساتھ خطاب فرما رہے تھے۔ہر چند بدیں وجوہ یہ خطاب مختصر تھا مگر تھا تو۔حکومتی وزیروں کی عوامی حمایت کا یہ عالَم ہے کہ کسی پر لوگ جوتا مارتے ہیں اور کسی کے منہ کو سیاہی پھینک کر منہ کالا کرتے ہیں ہر چند ایسی حرکت یعنی جُوتا وغیرہ اور کالک کو کسی نے بھی سرِ عام سراہا نہیں۔خود عمران خان نے بھی ان حرکات کی مذمت کی ہے۔ بھلے اندر خانے ۔۔۔۔خیر دفع کریں ہمیں کسی لیڈر کی غمی خوشی سے کیا لینا جب لیڈروں کو ہی عوام بچاروں کے دُکھ سُکھ کی پروا ہی نہیں۔ تاہم ہے تو عبرت کا مقام ۔ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے میاں صاحب کے کئی پیارے کیفرِ کردار کو پہنچ چکے ہوں گے یا پہنچنے والے ہوں گے ۔ یہ جوتے اور کالک اُس عوامی غم و غُصے کا اظہار ہے جو عوام کے اندر ان حکومتی گُرگوں نے خود کُوٹ کُوٹ کر بھر دیا ہُوا ہے۔عوام کا زور جب کہیں نہیں چلتا تو وہ ایسی ہی حرکتیں کرتے ہیں۔ اس کی ابتدا بُشؔ پر جوتے سے کی گئی تھی ۔بُش بھی دو دفعہ صدر دھاندلی سے ہی بنا تھا اور اِدھر ہمارے ہاں بھی دو دو تین تین بار وزیرِ اعظم ‘عظیم دھاندلیوں ہی سے بنتے آئے ہیں۔اس وقت کئی بکا ؤ گھوڑے سینیٹ کے ممبر منتخب ہونے پر وہ حلفِ وفا داری اٹھا رہے ہیں جس حلف کے پرخچے وہ بعد میں کرپشن کر کے اُڑائیں گے۔تنخواہیں، بھتے، مراعات اور فنڈز کی خورد بُرد کریں گے اور عیش کی زندگی گزاریں گے اور یہ مال ہو گا ہمارے تمہارے ٹیکسوں کا۔سینیٹ کی ممبری خود پری پول دھاندلی ثابت ہو گی۔عدالتی فیصلوں کی سرِ عام نفی کرنے اور ایک نا اہل کو اپنا سردار ماننے والے ہم سب کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔لگتا ہے ہر پاکستانی ، الا ماشاء اللہ، صرف مال بنانے اور عیاشی پر جُتا ہُوا ہے۔ مر کون رہا ہے اور پِس کون رہا ہے؟ صرف وہ جو نام کے شریف نہیں ہیں کام کے شریف ہیں۔جنہیں خوفِ خدا ہے،ایسے لوگ پاکستانی قوم میں سے مِٹ نہیں گئے۔ یہ نیک انسان بہت بڑی تعداد میں ہیں صرف اتنا ہے وہ بچارے لائم لائٹ میں نہیں ہیں اور بد معاشوں کے انبوہ میں دبے ہوئے ہیں ۔ جس دن کوئی سچا اور کھرا رہنما میسر آ گیا یہ نیک لوگ اُبھر کر سامنے آئیںگے اور بد معاشوں کو نیست و نابود کر دیں گے۔ انشاء اللہ!ع
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ