گورداس پور تھانے پر حملہ ہو یا ممبئی دھماکے،بھارت اپنے ملک میں ہونے والے کسی بھی سانحے کا الزام پاکستان پر لگانے کا عادی ہے۔ حتیٰ کہ بھارتی پولیس پاکستان کی طرف سے جانے والا کوئی کبوتر بھی پکڑ لے تو اسے جاسوس قرار دے دیتی ہے۔الزام تراشی کی اس خصلت میں بھارتی میڈیا ہمیشہ پیش پیش رہتا ہے اور اپنے سیاستدانوں کے رہنماء کے طور پر کام کرتا ہے۔
بھارت کو سب سے زیادہ تکلیف پاکستانی خفیہ آئی ایس آئی سے ہوتی ہے جو دنیا کی چند بہترین خفیہ ایجنسیوں میں سے ایک ہے۔ بھارتی سیاست دان اور میڈیا اپنی ذلت و خواری کم کرنے کے لئے اب یہ تاثر دینے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ آئی ایس آئی افغانیوںکو تربیت دے کر امریکہ سے لڑوا رہی ہے۔
بھارت امریکہ کو بھی یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ افغانستان میں اس کی ناکامی کی وجہ پاکستان اور آئی ایس آئی ہے۔ امریکہ جو آج کل بھارت کا ہمنوا بنا ہوا ہے ۔ ہر بھارتی بات پر لبیک کہہ رہا ہے ۔ وہ بھی افغانستان میں اپنی ناکامی کا ذمہ دار پاکستان کو سمجھ رہا ہے۔ اس کا ثبوت امریکی مصنف سٹیو کول کی عنقریب مارکیٹ میں آنے والی کتاب ' Directorate S -CIA and American's secret War in Afghanistan and Pakistan, 2001-2016' ہے جس میں مصنف نے آئی ایس آئی کے بارے میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کا ایک شعبہ افغان طالبان کو تربیت دینے میں مصروف ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ اور نیٹو (ایساف) کو افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ اسی لیے امریکہ افغانستان میں اہداف کے حصول میں ناکام ہوا ہے۔
سٹیو کول اس سے پہلے بھی ایک کتاب' Ghost Wars" کے نام سے لکھ چکے ہیں جس میں روس کے مقابلے میں امریکی جنگ کاذکر ہے ۔ اس کتاب میں بھی کول نے سی آئی اے اور آئی ایس آئی کی مشترکہ مہم جوئی میں ناکامی کا ذمہ دار آئی ایس آئی کو ٹھہرایا تھا۔ بہر حال مصنف کا مقصد اس کتاب کے ذریعے یہ ثابت کرنا ہے کہ امریکی کہانی بالکل درست ہے اور اسے نہ صرف امریکہ بلکہ خطے کے ممالک بھارت اور افغانستان کی بھی آشیر باد حاصل ہے۔
بھارت نے آئی ایس آئی پرافغانیوں کی مدد کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے پاکستانی خفیہ ایجنسی سے متعلق اس حقیقت کا ادراک کر لیا جس کا بھارت اسے بہت پہلے سے احساس دلا رہا تھا۔ پاکستان کے متنازعہ کردار کی بدولت افغانستان میں عسکریت پسندی جاری ہے اور آئی ایس آئی افغان طالبان کی مددکررہی ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ملنے والی امریکی امداد بھارت کیخلاف اپنا دفاع مضبوط کرنے کیلئے استعمال کررہا ہے۔
پاکستان نے ایک برطانوی تعلیمی ادارے کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے طالبان سے رابطے اب تک کے اندازوں سے کہیں زیادہ گہرے ہیں اور طالبان کی حمایت آئی ایس آئی کی ’سرکاری پالیسی‘ ہے۔اس رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی نہ صرف طالبان کو وسائل، تربیت اور پناہ گاہیں فراہم کرتی ہے بلکہ اس کے اہلکار طالبان شورٰی کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔
افغانستان میں سرگرم طالبان نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نہ صرف طالبان کو وسائل، تربیت اور پناگاہیں فراہم کرتی ہے بلکہ اس کے اہلکار طالبان شورٰی کے اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ ان کی جانب سے پیغام میں کہا گیا ہے کہ یہ رپورٹ حقائق پر مبنی نہیں اور یہ مغرب کے سیاسی رہنماؤں کا سٹیج کردہ ایک ڈرامہ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی جب افغانستان میں طالبان کے حملوں کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے ہیں تو انہوں نے اپنے تعلیمی اداروں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ طالبان کی مزاحمتی تحریک افغانستان کے اندر سے اٹھی ہے اور اسے افغانستان سے باہر کسی شورٰی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں پاکستان سمیت کسی غیر ملکی قوت کی حمایت درکار نہیں اور اگر پاکستان طالبان کی حمایت کر رہا ہوتا تو افغانستان میں صورتحال آج کی صورتحال سے کہیں مختلف ہوتی۔
پاکستانی فوج کے خفیہ ادرے آئی ایس آئی پر طالبان کے ساتھ تعلقات کے الزامات بے بنیاد ہیں اورہمیں مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ آئی ایس آئی ایک سرکاری ادارہ ہے وہ ملک کے لیے وہی کام سرانجام دیتا ہے جو دوسرے ملکوں کے خفیہ ادارے اپنے ممالک کے لیے کرتے ہیں۔ پاکستان مخالف میڈیا آئی ایس آئی کے خلاف اس طرح کی بے بنیاد خبریں شائع کرتا رہتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم پر اس طرح کے الزام پہلے بھی لگتے رہے ہیں کہ پاکستان کے افغان طالبان کے ساتھ قریبی رابطے ہیں اور آئندہ بھی یہ الزامات لگتے رہیں گے۔ پاکستان نے خود بھی امریکہ اور دیگر ممالک کو یہ پیشکش کی ہے کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی سیاسی حل نکلے اور طالبان سے بات کی جائے تو پاکستان اس میں تعاون کر سکتا ہے۔تاہم طالبان نے کہا ہے کہ آئی ایس آئی کے افغان طالبان سے رابطے کا کوئی ثبوت نہیں ہے پاکستان طالبان کی حمایت نہیں کر رہا اور نہ ہی آئی ایس آئی انہیں پیسے مہیا کر رہی ہے یا انہیں اسلحے کی شکل میں مدد فراہم کر رہی ہے۔
بڑی طاقتوں کی ایک عجیب خودپسندانہ نفسیات ہوتی ہے وہ ترقی پذیر ممالک کو یا تو مکمل اپنا باجگزار بنا کے رکھنا چاہتی ہیں یا کسی نہ کسی انداز سے ان کو اپنا محتاج بنا کے رکھنا چاہتی ہیں۔ تا کہ بوقتِ ضرورت ان کو بلیک میل کر کے یا طاقت کے زریعے اپنے مقاصد کیلیے استعمال کیا جا سکے۔امریکی جو پینٹا گون اور واشنگٹن میں بیٹھ کر دنیا کے امور کو دیکھتے ہیں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے ہیں کہ پاکستان کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کریں۔اس مقصد کی تکمیل میں آئی ایس آئی اور پاکستان آرمی وہ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جو ان کے ناپاک مقاصد کو تکمیل سے روکے ہوئے ہیں۔آئی ایس آئی پر عالمی طاقتوں کے غصے کی وجہ دراصل ان کی بے بسی ہے۔ وہ بے بسی جو آئی ایس آئی پہ قابو نہ پا سکنے کی صورت میں ان کو ہمیشہ سے لاحق ہوتی ہے۔
یہی چال بھارت نے کشمیر کے حریت پسند جنگجوؤں کے متعلق چلی اور کہا کہ پاکستان جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ کے دھشت گردوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ آئی ایس آئی ہی تھی جس نے بتایا کشمیر میں لڑنے والے بھارت کی بربریت کی وجہ سے کھڑے ہوئے ہیں آئی ایس آئی کی وجہ سے نہیں۔ یہاں پھر عالمی طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے متعلق عالمی سطح پر امریکہ اور یورپی یونین کے ممالک نے اتنا شور مچایا کہ گماں ہونے لگا کہ دنیا ایک چلتے ہوئے ٹائم بم کے اوپر رکھی ہے جو کسی بھی وقت پھٹے گا اور دنیا تباہ ہو جائے گی۔ کہا گیا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار عنقریب دھشت گردوں کے قبضے میں چلے جائیں گے اور یورپی اقوام صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی۔