کھانا گرم نہ کرنے کا پچھتاوا

یوم خواتین 8 مارچ کو ساری دنیا میں منایا گیا لیکن پاکستان میں یہ دن بڑے جارحانہ انداز اور اسلوب سے گذرا جس نے بڑے بڑے روشن خیالوں کو کانوں کو ہاتھ لگانے پر مجبور کر دیا فحاشی کو چھوتی بے باکی، جنسی استعاروں سے بڑھ کر خاکوں اور کارٹونوں کے ذریعے سوقیانہ’ سفلی جذبات کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا اور اس کا نشانہ صرف ہمارے بڑے شہر بنے یہ سب کام بڑے منظم طریقے سے کیا گیا ورنہ سرحد پار بھارت بنگلادیش اور سری لنکا میں بھی مسائل ایک جیسے اور یکساں ہیں لیکن وہاں روایتی انداز میں پروگرام ہوئے، مقالے پڑھے گئے اور دن تمام ہو گیا لیکن کراچی لاہور اور اسلام آباد میں ہونے والی ‘‘بے چہرہ’’ تقریبات اور مار چوں کی اٹھان ہی بڑی جارحانہ تھی۔ افسوس صد افسوس یہ کہ الیکٹرونک میڈیا نے ان تقریبات کی ضرورت سے زائد کوریج کی لیکن وہاں لگنے والے نعروں بے ہودہ بینروں اور حرکات وسکنات کا ذکر تک نہ کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے یہ سب اچانک نہیں، طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہو رہا تھا۔ یہ تہذیبوں کی جنگ کا ایک محاذ تھا ویسے یہ بھی چونکا دینے والی حقیقت ہے تمام بینر اور پوسٹر ایک ہی ہاتھ سے لکھے ہوئے محسوس ہورہے تھے جس کا نشانہ ہماری تہذیبی روایات اور مقدس معاشرتی ادارے ہیں خاص طور پر ‘‘نکاح’’ کو ہدف بنایا گیا کہ کھلم کھلا بدکاری اور جنسی بے راہروی کا راستہ کھولا جا سکے، اس پر ردعمل بھی بڑا شدید آیا ہے لیکن دو علامتی افسانچوں اور ایک جارحانہ نظم کے ذریعے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے ۔
رہی ان حرکات کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کی تو ان کے ‘وکلا صفائی’ خود شرمندہ شرمندہ تھے لیکن بالکل غیر متوقع طور پر ساتھی کالم نگار فاروق عادل پرانے دلائل نئے جواز کے ساتھ لیکر میدان میں آئے ہیں،یہ ذہنی کایا کلپ سابق صدر ممنون حسین کی قربت کا نتیجہ نہیں ہوسکتی کہ وہ تو مشرقی اقدار و روایات کا مرقع اور زندہ و جاوید علامت ہیں لیکن نواز شریف نہیں جناب ‘ مریم نواز اور ‘کڑاکے کڈدیواں گے’فیم مشاہد حسین سے متاثر ہو سکتے ہیں کہ وہ چڑھتے سورج کی مانند ہیں اور میاں شریف کے خاندان کی زریں سماجی اقدار بتدریج زوال پذیر ہیں۔
یہ شاندار علامتی افسانہ ہے جو پاکستان کے شہری متوسط طبقے کے سماج میں جاری کشمکش کو بڑی سادگی سے بیان کرتا ہے۔کسی مہربان نے بھجوایا ہے خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے گذشتہ دنوں پاکستان کے بڑے شہروں میں منظم طریقے سے ہونیوالے ہنگامۂ ہاؤ ہو ، بد تہذیبی اور سوقیانہ پن نے ماحول کو پراگندہ کیا ہوا ہے ،غلیظ نعروں اور واہیات پوسٹروں نے تو آزادیٔ نسواں کے بڑے بڑے علمبرداروں کے سر شرم سے جھکا دئیے ہیں ایسے ماحول میں یہ مختصر علامتی افسانہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا محسوس ہوا نامعلوم مصنف کے شکریہ کے ساتھ پیش خدمت ہے:شادی سے پہلے‘‘پاپا میں کسی کی غلامی نہیں کر سکتی۔"
"کوئی کسی کی غلامی نہیں کرتا میری بچی۔ سب اپنے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں۔ جو کام عورتوں کے لیئے مشکل ہیں وہ مرد کرتے ہیں اور جو مردوں کے لیئے مشکل ہیں وہ عورتیں ، یونہی مل جل کر گزارا ہوتا ہے۔"شادی کے بعد"میں کھانا گرم نہیں کروں گی۔"
"تو اپنے باپ کے گھر واپس چلی جاؤ۔ میں صبح سے شام تک محنت کرتا ہوں تمہاری ضروریات پوری کرنے کے لئے۔ تم میری ضرورت پوری نہیں کر سکتی تو مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔"
طلاق کے بعد (اسلام آباد کی سڑکوں پر بینر اٹھائے ) "کھانا خود گرم کر لو۔"
"کھانا خود گرم کر لو۔"
"کھانا خود گرم کر لو۔"
"کھانا خود گرم کر لو۔"
میرا جسم میری مرضی دوپٹے کا اتنا خیال ہے تو آنکھوں پر باندھ لو۔
باپ کے مرنے کے بعد
"دیکھو میری بہن۔ میں اب فیملی والا ہوں۔ میری بیوی تمہیں اور برداشت نہیں کر سکتی۔ تم اپنا بندوبست کہیں اور کر لو۔"
نوکری کی تلاش میں
"ہمارے پاس استقبالیہ پر خاتون کی جگہ خالی ہے۔ آپ ماشاء اللہ خوبصورت ہیں۔ وہاں کام کر سکتی ہیں۔"
ڈھلتی عمر
"بی بی ، ہم معذرت خواہ ہیں۔ آپ کے کام میں اب پہلے جیسی تندہی نہیں۔ آپ کہیں اور نوکری ڈھونڈیں۔ ہمیں اب آپ کی ضرورت نہیں۔"
ظالم بڑھاپا۔ "محترمہ ، آپ کی اتنی عمر ہو گئی ہے۔ اب میں آپ کو کیا نوکری دوں۔ اب تو آپ کو آرام سے اپنے بچوں کی کمائی کھانی چاہیئے۔"
"میرے بچے نہیں ہیں۔ میرا کوئی نہیں ہے۔"
"اوہ ، چلیں میں کچھ کرتا ہوں آپ کیلئے۔ میرا بیس افراد کا عملہ ہے۔ کیا آپ ان سب کیلئے کھانا پکا سکتی ہیں ؟ میں آپ کو بیس ہزار روپے ماہانہ دوں گا ؟" "بیس ہزار ؟"
"میں جانتا ہوں کہ ان بیس ہزار میں آپکی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ مگر میں مجبور ہوں۔ اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں میرے پاس۔"
"ٹھیک ہے۔ مجھے منظور ہے۔" اس کی آنکھوں سے آنسو زار و قطار بہہ رہے تھے اور سوچ رہی تھی کہ کاش جوانی میں ہی کھانا گرم کر دیتی۔
دوسرا افسانہ ذرا پیچیدہ ہے لیکن موضوع سے مطابقت رکھتا ہے اور شاید ایک حد تک سبق آموز بھی ہے۔ کہتے ہیں ایک گاؤں میں ایک باپردہ خاتون رہتی تھیںجن کی شرط یہ تھی کہ شادی اس سے کریں گی جو انہیں باپردہ رکھے گا۔ایک نوجوان اس شرط پر نکاح کیلئے رضامند ہوجاتا ہے۔دونوں کی شادی ہوجاتی ہے۔ وقت گذرتا رہتا ہے یہاں تک کہ ایک بیٹا ہوجاتا ہے۔ایک دن شوہر کہتا ہے کہ میں سارا دن کھیتوں میں کام کرتا ہوں۔ کھانے کیلئے مجھے گھر آنا پڑتا ہے جس سے وقت کا ضیاع ہوتا ہے تم مجھے کھانا کھیتوں میں پہنچادیا کروبیوی راضی ہوجاتی ہے۔وقت گذرتے گذرتے ایک اور بیٹا ہوجاتا ہے جس پر شوہر کہتا ہے کہ اب گذارا مشکل ہے تمہیں میرے ساتھ کھیتوں میں ہاتھ بٹانا پڑے گایوں وہ باپردگی سے نیم پردے تک پہنچ جاتی ہے اور تیسرے بیٹے کی پیدائش پر اس کا شوہر مکمل بے پردگی تک لے آتا ہے۔ وقت گذرتا رہتا ہے یہاں تک اولاد جوان ہوجاتی ہے۔ ایک دن یونہی بیٹھے بیٹھے شوہر ہنسنے لگتا ہے۔بیوی سبب پوچھتی ہے تو کہتا ہے کہ بڑا تو پردہ پردہ کرتی تھی آخر کار تیرا پردہ ختم ہوگیا۔ کیا فرق پڑا پردے اور بے پردگی کا،زندگی تو اب بھی ویسے ہی گذر رہی ہے۔وہ بولتی ہے کہ تم ساتھ والے کمرے میں چھپ جاؤ میں تمہیں پردے اور بے پردگی کا فرق سمجھاتی ہوں۔شوہر کمرے میں چھپ جاتا ہے۔عورت اپنے بال بکھیرے رونا پیٹنا شروع کردیتی ہے۔پہلے بڑا بیٹا آتا ہے۔ رونے کا سبب پوچھتا ہے،کہتی ہے تیرے باپ نے مارا ہے،بڑا بیٹا ماں کو سمجھاتا ہے کہ اگر مارا ہے تو کوئی بات نہیں وہ آپ سے محبت بھی تو کرتے ہیں آپ کا خیال رکھتے ہیں۔وہ سمجھا بجھا کر چلا جاتا ہے۔عورت پھر سے رونے کی ایکٹنگ کرتی ہے اور منجھلے بیٹے کو بلا کر بتاتی ہے کہ تیرے باپ نے مجھے مارا،اس کو غصہ آتا ہے وہ باپ کو برا بھلا کہتے ہوئے ماں کو سمجھا بجھا کر چپ کروا کر چلا جاتا ہے۔آخر کار عورت یہی ڈرامہ چھوٹے بیٹے کے سامنے کرتی ہے۔چھوٹا بیٹا تو غصہ سے آگ بگولہ ہوجاتا ہے اور زور زور سے گالیاں بکتے ہوئے ڈنڈا اٹھاتا ہے اور کہتا ہے کہ ابھی باپ کی خبر لیتا ہوں۔پھر عورت شوہر کو بلا کر بولتی ہے: پہلا میرے پردے کے وقت پیدا ہوتو اس نے تیرا پردہ رکھا۔دوسرا نیم پردے کے زمانے میں پیدا ہواتو تیری آدھی لاج رکھ لی۔جبکہ تیسرا جو مکمل بے پردگی کے زمانے میں ہواتو وہ مکمل طور پر تیرا عزت کا پردہ اتارنے لگا۔حاصل کلام:پردہ اور احترام عورت کا فطری تقاضا ہے جو خالق مرد وزن کی طرف سے قاعدہ بھی ہے۔
تیسرا منظوم فن پارہ جارحانہ انداز تخاطب رکھتا ہے :
عورت آزادی مارچ
تم عزّت ،عَصمت،غیرت کا' مفہوم بدل دو شہرت سے
سڑکوں پر جاکر راج کرو اور زور سے چیخو آزادی
آواز ے کَسیں لونڈے تم پر ' تو شور مچاؤ " آزادی"
گھر کے ہر کام سے بیزاری دفتر سے تم کو رغبت ہے
گھر زندان لگے تم کو اور جاب کو سمجھو آزادی
تحقیر کرو تم عورت کی' پھر ناچ کے بولو آزادی
چادر کو تم پامال کرو' دیوار پہ لکّھو آزادی
تم عزّت ،عَصمت،غیرت کا' مفہوم بدل دو شہرت سے
سڑکوں پر جاکر راج کرو اور زور سے چیخو آزادی
تم آوارہ بدچَلنی کا تعذ پہَن لو گردن میں
آواز ے کَسیں لونڈے تم پر ' تو شور مچاؤ " آزادی"
گھر کے ہر کام سے بیزاری دفتر سے تم کو رغبت ہے
گھر زندان لگے تم کو اور جاب کو سمجھو آزادی
دوچار کتابیں مذہب کی' اب پڑھ لینا تم آنٹی جی!
پھرجا کر اپنی پلٹن کو ' حق بات بتانا آنٹی جی!
مغرب کے جھوٹے برتن میں' ہے کھانا پینا راس تمھیں
کھوٹے سکّوں جیسے نعرے' لگتے ہیں کیوں خاص تمھیں
دس بارہ گندے نعروں سے' تقدیر بدل سکتی ہوتم ؟
دل کے خانے سے شوہر کی ' تصویر بدل سکتی ہو تم ؟
اونچی ایڑھی سینڈل سے' کیا" کے۔ٹو " سَر کر پاؤ گی؟
چھوڑ زمین ۔۔۔ گَر اْڑنا ہے تو منہہ کے بَل گِر جاؤ گی
کس بھول میں ہو تم آنٹی جی! کس خواب محل میں رہتی ہو؟
کیوں عزت تم کو راس نہیں' جو ایسے ‘‘ جملے’’کہتی ہو؟
خود اپنی عصمت پَیروں میں' تم روند رہی ہو غیروں میں
ذلّت آمیز فسانوں میں جیسے ہو قحبہ خانوں میں
اپنی عزّت کرنا سیکھو' پھر نکلو تم بازاروں میں
ورنہ چَھپتی رہ جاو گی ' شام کے سَستے اخباروں میں
حرف آخر یہ کہ تین نمائندہ تحریروں اور اپنی گذارشات کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں تہذیبوں کی جنگ کا مرحلہ درپیش ہے جو کچھ 8 مارچ کو اسلام آباد ‘ کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر ہوا وہ آنے والے زمانوں کی ہلکی سی جھلک ہے لیکن ہم دو قومی نظریے کے علمبردار’ جنت مکانی جناب مجید نظامی کے پیروکار ہر میدان اور محاذ پر مقابلہ کریں گے منہ توڑ جواب دیں گے۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن