میں نے بہت پہلے محسوس کر لیا تھاکہ بھارت پاکستان کے خلاف ضرورکسی سازش کے تانے بانے بنے گا اور ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) میں شکایت کے لیے امریکہ کواستعمال کرے گا۔ اس سازش میں پاکستان پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کو فنانس کرنے کاالزام لگایا جائے گا۔ اس مذموم منصوبے کا مقصد پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے مفلوج کرنا ہو گا، چنانچہ وہی ہوا جس کا مجھے خدشہ تھا کہ ایف اے ٹی ایف نے امریکہ کی شکایت پر پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا۔ دراصل یہ کارروائی پاکستان کے خلاف بھارتی وزیر اعظم مودی کی ڈاکٹرائن تھی جو اس کی مضبوط مغربی لابی کے باعث بروئے کار آئی۔ ایف اے ٹی ایف نے امریکہ کے معاندانہ مقاصد کی حامل شکایت پر پاکستان کے خلاف تحقیقات شروع کر دی اور دفاع میں پاکستان کے نکتہ نظر کو درست تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ بدقسمتی سے ہمارے قریبی اور دوست ملکوں نے بھی امریکی اور بھارتی لابی کے زیر اثر آ کر ہمیں ووٹ نہ دئیے۔ میں نے حکومت کو یہ معاملہ مجموعی قومی دانش کی خاطر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے سامنے رکھنے کی تجویز پیش کی۔ اگرچہ پاکستان کودفاع میں پیش کردہ حقائق کو جانچے بغیر سزا دی گئی لیکن پھر بھی اس نے دفاعی پالیسی کی راہ اختیار نہ کی۔ پاکستان، بھارت کے خلاف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی جوابی شکایت دائر کرنے میں ناکام رہا۔ حالانکہ وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتی حکومت کے خلاف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے کافی شواہد تھے۔ یہ تو ریکارڈ پر ہے کہ امریکی کانگرس کے کئی ارکان اور بعض دوسرے لوگ القاعدہ اور داعش کی تخلیق کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے عالمی ایجنڈے کی خاطر ان دونوں تنظیموں کو بنایا، اسلحہ اور پیسہ فراہم کیا۔ کہا یہ دہشت گردی کو فنانس کرنا نہیں؟ اسی طرح بھارتی آر ایس ایس (دہشت گردی کے لحاظ سے) القاعدہ سے کسی طرح کم نہیں۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ یہ امریکہ ہی ہے جو جہادیوں کو افغانستان میں سوویٹ یونین سے لڑنے کے لیے پاکستان لایا۔ یہ امریکی ایجنسی سی آئی اے ہے جس نے فاٹا کے علاقے میں جہادیوں کی فصل کاشت کی۔ آج بھی اس کے شواہد موجود ہیں۔ اس پس منظر میں ، میں نے ایف اے ٹی ایف کے صدر سے 19 فروری 2019ء کو ثبوتوں کے ساتھ تحریری شکایت کی کہ بھارتی وزیراعظم مودی کلبھوشن کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے والوں، بین الاقوامی مجرموں، اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ بھارتی را کا ایجنٹ کلبھوشن یادو -3 مارچ 2016ء کو بلوچستان میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا۔ اس وقت اسکا کیس عالمی عدالت انصاف میں زیر التوا ہے۔ مزید براں مودی حکومت بدترین انتہا پسند دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس (جس نے بھارت میں اقلیتوں کا جینا حرام کر رکھا ہے) کو مالی مدد اور تحفظ فراہم کر رہی ہے۔
میں نے ایف اے ٹی ایف کے صدر کو جواب دینا اخلاقی فرض جانا کہ اس نے پاکستان کے خلاف تو جھٹ شکایت قبول کر لی، لیکن بھارت کے خلاف درخواست پر کارروائی نہ کر کے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے بنیادی منشور کی خلاف ورزی کی گئی۔ پاکستان کے خلاف اس قسم کا امتیازی سلوک ایف اے ٹی ایف کے مینوئل 2012-2020 ء کے خلاف ہے بلکہ اس نے ایف اے ٹی ایف کی غیر جانبداری اور ساکھ بارے بھی سوال کھڑا کردیا ہے۔ میں برادران وطن کی آگاہی کے لیے اپنے اس خط کے مندرجات نہیں کر رہا ہوں، جو میں نے ایف اے ٹی ایف کے صدر کو 14 فروری 2019ء کو لکھا تھا۔ ’’مسٹر مارشل بلنگ سلی: صدر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) ایف اے ٹی ایف ہیڈ کوارٹرز پیرس ، فرانس موضوع:۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف ، منی لانڈرنگ کے تحت ایکشن…پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک
ڈیر مسٹر مارشل بلنگ سلی
بہت شکریہ، میں نے اپنے خط محررہ 14 فروری 2019ء کا جواب پایا (کاپی لف ہذا)
آپ کے جوا ب میں:
آپ نے فرمایا ہے کہ کسی ایک شکایت پر انکوائری / انویسٹی گیشن، ایف ٹی ایف کے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ ادارہ محض پالیسی ساز ہے، اس لیے وہ بھارت کے خلاف تحقیقات کرنے سے قاصر ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے مینڈیٹ کی کاپی منسلک ہذا ہے۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ امریکہ کی شکایت (دہشت گردی میں ملوث اور منی لانڈرنگ) کی بنا پر انکوائری کی گئی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو گرے لسٹ پر ڈالا گیا۔ ایف اے ٹی ایف نے میری شکایت کے بارے میں بھارتی وزیراعظم مودی کے خلاف الزامات کے ضمن میں جو مؤقف اختیار کیا‘ وہ حقائق پر مبنی نہیں‘ میں نے یہ شکایت پارلیمنٹیرین اور (پاکستان کی) سینیٹ کی داخلہ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے کی تھی۔ میں نے مودی کے خلاف اپنی شکایت کے ساتھ ناقابل تردید شہادت پیش کی تھی۔ لیکن مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی کہ ایف اے ٹی ایف نے میری شکایت مینڈیٹ اور اختیار کی آڑ میں ٹال دی۔ دوبارہ گزارش ہے کہ مہربانی کر کے میری شکایت پر مودی اور اس کی حکومت کے خلاف انکوائری کی اسی طرح کارروائی کی جائے جس طرح امریکہ کی شکایت پر پاکستان کے خلاف کی گئی ہے۔ میں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ اگر اس شکایت پر مودی اور اس کی حکومت کے خلاف کارروائی نہ ہوئی تو سمجھا جائے گا کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کر کے پاکستان سے امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ آخر پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں؟ میں آپ کی توجہ‘ ایف اے ٹی ایف کے ضوابط کی طرف دلاتا ہوں‘ جو ایف اے ٹی ایف کو انکوائری / انویسٹی گیشن کا اختیار دیتے ہیں۔
مینڈیٹ بارے دیئے گئے اقتباسات ظاہر کرتے ہیں کہ مودی کیخلاف جس کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا‘ وہ یقیناً اسکے دائر اختیار میں آتی ہے‘ اور وہ ضابطے بھارت پر بھی دوسروں کی طرح لاگو ہوتے ہیں‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ بھارت کو ایف اے ٹی ایف کے منشور سے چھوٹ ملی ہوئی ہے۔
دوسری طرف‘ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی سفارشات پر من و عن کا عمل کیا ہے۔ لیکن پھر بھی اسے گرے لسٹ میں رکھا جا رہا ہے، چنانچہ پاکستان یہ پوچھنے کا حق رکھتاہے کہ پاکستان کے خلاف امتیازی سلوک کیوں ہو رہا ہے اور بھارت کے خلاف ناقابل تردید ثبوت ہونے کے باوجود کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی۔ ہم پارلیمنٹیرین اس امتیازی برتائو کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں ورنہ ایف اے ٹی ایف کا جانبدارانہ رویہ اسے متنازعہ بنا دے گا۔
ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اس طرح جنگ لڑی کہ وہ اس محاذ پر سب سے آگے تھا۔ 70 ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس جنگ میں بھاری مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں دوسروں کی نسبت پاکستان نے سب سے زیادہ جانی و مالی قربانیاں دیں۔ ان حقائق کی موجودگی میں دہشت گردی کی فنڈنگ اور منی لانڈرنگ ایسے الزامات میں پاکستان کو ملوث کرنے کا کوئی جواز نہیں، دراصل یہ بھارت ہی تھا جو حاضر سروس نیول آفیسر کلبھوشن یادو کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کی فنڈنگ کرتا رہا اور جو بلوچستان میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا اور جس نے تفتیش کے دوران اپنی پاکستان دشمن کارروائیوں کااعتراف بھی کیا۔
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں براہ کرم اپنے فیصلے پرنظرثانی کیجئے اور بھارت کے خلاف دہشت گردی کی فنڈنگ اور منی لانڈرنگ کے الزام کے تحت انویسٹی گیشن کریں۔ اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو پھر اپنی غیر جانبداریت ثابت کرنے اور ساکھ کی بحالی کے لیے پاکستان کو بھی گرے لسٹ سے نکال دیں۔ بحیثیت قوم ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم گرے لسٹ میں ڈالے جانے کے باعث ملک کی شہرت اور معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کا دعویٰ کریں۔ درخواست گزار ہوں کہ میری سربراہی میں سینٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے تین رکنی وفد کو اس اہم قومی مسئلے پر اپنا نقطہ نظر بالمشافہ پیش کرنے کا موقعہ دیاجائے۔
آپ کا مخلص دستخط
(سینیٹر اے رحمن ملک)
چیئرمین / سینٹ مجلس قائمہ برائے داخلہ
توقع ہے کہ ایف اے ٹی ایف قدرتی انصاف کی خاطر بھارت کیخلاف میری درخواست پر تحقیقات کریگا اور آپ پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے پر غور فرمائیں گے۔
میں نے اس (خط ) کی ایک کاپی خارجہ و داخلہ وزرا کو بھی ارسال کی ہے اور درخواست کی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے سامنے آر ایس ایس اور دہشت گردی کی فنڈنگ اور منی لانڈرنگ پر انڈیا کے خلاف باقاعدہ شکایت دائر کی جائے۔ بحیثیت قوم سمجھ لیناچاہئے کہ ہمیں معذرت خواہانہ رویہ اختیارکرنے کی بجائے آگے بڑھ کراقدامات کرنا ہوں گے اور ہمیں اس متعصب بین الاقوامی فورم (ایف اے ٹی ایف) پر اپنے حقوق کا تحفظ کرنا ہو گا۔ وزیر خزانہ نے حال ہی میں ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے خلاف بھارتی لابی کے بارے میں جو بیان دیا ہے اس کا تمام حکومتی سٹیک ہولڈرز کوسنجیدگی سے نوٹس لینا ہوگا اور بھارتی لابسٹوں کا مئوثر توڑ کرنے اور جواب دینے کے لیے جامع حکمت عملی وضع کرنا ہو گی۔ دہشت گردوں کی مالی امداد کرنے ، منی لانڈرنگ کرنے والوں کے تحفظ اور بین الاقوامی مجرموں کو پناہ دینے کے حوالے سے حکومت کو بھارت ایف اے ٹی ایف میں سرکاری طور پربھارت کیخلاف درخواست دائر کرنا چاہئے، حکومت کو متنبہ کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے نوٹس لے اور پاکستان کے خلاف معاند بین الاقوامی لابی کی کوششوں کو ناکام بنائے کیونکہ ایسا کوئی بھی غلط فیصلہ ہماری پہلے ہی ڈانوا ڈول معیشت کے لیے سخت نقصان دہ ہو گا۔ (ترجمہ و تلخیص: حفیظ الرحمن قریشی)