تین سوالات

Mar 14, 2020

لبنیٰ صفدر

اعلیٰ اور معیاری تعلیم کیلئے کوششیں تو ہر دور میں ہوتی رہی ہیں، کئی دفعہ تعلیمی منصوبہ جات تیار ہوئے ، بار بار تعلیمی اصلاحات بھی ہوتی رہیںلیکن دیکھا جائے تو پاکستانی معیار تعلیم میں کچھ خاص پیش رفت کرنے میں کوئی بھی حکومت مکمل کامیاب ہوتی نظر نہیں آئی اس کی وجہ آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ہمارا معیار تعلیم آخر بین الاقوامی معیار تک پہنچنے میں ناکام کیسے رہ جاتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ اب تو اساتذہ کی بھرتیاں بھی کئی سالوں سے میرٹ کی بنیاد پر ہورہی ہیں کچھ سال پہلے تک اساتذہ زیادہ تر کوالیفائیڈ نہیں تھے اور نہ ہی ریگولر سکولوں میں جانے کا رواج تھا اب حالات اگرچہ پہلے جیسے نہیں ہیں لیکن تبدیلی کے واضح آثار اب بھی نظر نہیں آتے۔ یہ تو بات ہورہی ہے گورنمنٹ سکولوں کی جہاں منصوبہ جات کو عملی شکل بھی دی گئی کچھ کامیاب رہے اور کچھ بری طرح ناکام رہے۔ سرکاری سکولوں کو اپ گریڈ کرنے اور معیارِ تعلیم کو بلند کرنے میں سابقہ حکومت نے اگرچہ گراں قدر خدمات بھی سرانجام دی ہیں لیکن مکمل کامیابی پھر بھی حاصل نہیں ہوسکی۔ موجودہ حکومت اور نئے صوبائی وزیر سکولز ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ پنجاب نے اپنے قلمدان سنبھالتے ہی تعلیمی اصلاحات پر کام شروع کردیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تعلیمی اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے دن رات کوششیں بھی جاری ہیں۔ جہاں سرکاری سکولوں میں نظام کو بہتر بنانے کی کوشش جاری ہے وہاں نجی سکولوں کو سرکاری دائرہ کار میں لانے کے بارے میں بھی سوچا جارہا ہے۔ نجی سکولوں کو دائرہ کار میں لانا ضروری بھی ہے میں سمجھتی ہوں کہ ان پرائیویٹ اداروں اور خاص طور پر چند نام نہاد اکادمیوں نے معیارِ تعلیم کا بیڑہ غرق کرنے میں آج کل کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ حیرت کی بات ہے کہ آج سے کچھ سال پہلے انتہائی محنت کرنے والے طلبہ و طالبات ہی فرسٹ ڈویژن لے پاتے تھے۔ دن رات کی انتھک محنت سے ہی طالب علم اگلی جماعت میں جا پاتا۔ لیکن اب جس سٹوڈنٹ کا رزلٹ کارڈ اْٹھا کردیکھ لیں کم از کم80فیصد نمبرز موجود ہوتے ہیں ہر سٹوڈنٹ تھوک کے حساب سے نمبرز حاصل کررہا ہے اور جب ان کا مطالعہ یا جنرل نالج چیک کیا جائے تو نتیجہ صفر حاصل ہوتا ہے۔ اس معمہ کی بھی ابھی تک سمجھ نہیں آرہی کہ اچانک سے ہر طالبعلم نے اتنے نمبرز حاصل کرنے کہاں سے شروع کردئیے اور دینے والوں نے اپنا ہتھ کیسے ہولا رکھ لیا۔ اب جو آپ سڑک پر جاتے ہوئے غور فرمائیں تو ایک نیا ٹرینڈ رواج پارہا ہے کہ رکشوں کے پیچھے ان تعلیم کے ٹھیکیداروں نے اشتہار لگا دئیے ہیں اور ان کے بقول بی اے کی تیاری صرف سات دنوں میں کریں اور گارنٹی کے ساتھ 90 فیصد نمبر حاصل کریں۔ مقام عبرت بھی ہے اور حیرت بھ اگر ایسا کرنا اتنا آسان ہے تو آ خربی اے اور دوسری اعلیٰ درجہ کی کلاسوں میں دو دو سال کی محنت کرنے اور کالجز یونیورسٹیز میں داخلہ لینے کی ضرورت ہی کیا ہے اور گرے ہوئے معیار تعلیم کو مزید گرانے میں یہ مافیا آخر کہاں سے سرگرم ہوگیا ہے ان کے پاس ایسی کون سی جادو کی چھڑی ہے اور ان کے پاس سٹوڈنٹ کو پاس کروانے کی Keysکہاں سے آگئی ہیں؟ اس معاملے میں آخر چیک کرنے والا کوئی کیوںنہیں ہے باقی بحث ایک طرف جس پر لوگ لکھتے اور بولتے رہتے ہیں میرا آج صرف حکومت ِ وقت سے یہ سوال ہے کہ ان اکادمیوں کے جرائم کو چیک کرنے کیلئے کوئی کمیٹی تشکیل کیوں نہیں دی گئی۔ میری نظر میں تو یہ ایک سنگین جرم ہے۔ ایسے لوگ نئی نسل کے مستقبل اور ہمارے نظام ِ تعلیم سے کھیل ہی تو رہے ہیں۔ میرا دوسراسوال حکومت وقت سے ٹریفک قوانین کے حوالے سے ہے کہ جناب یہ قوانین صرف ہیلمٹ کی حد تک ہی کیوں محدود ہوکر رہ گئے ہیں بہت عرصہ سے آپ نے یہ پابندی تو لگا رکھی ہے کہ جو ہیلمٹ نہیں پہنے گا اسے بھاری جرمانہ عائد کیا جائے گا مجھے اس سے اختلاف نہیں ہے ظاہر ہے اس میں ڈرائیور کی اپنی بھلائی بھی ہے اور دوسروں کی بھی مجھے اختلاف تو اس بات سے ہے کہ جو قانون بنایا جاتا ہے وہ اْدھورا اور ناممکمل کیوں ہوتا ہے۔ اْدھورا اس لئے کہ ہیلمٹ پر تو سختی ہے لیکن رانگ سائیڈہرڈرائیوکرنے والوں پر نہ کوئی پابندی ہے نہ کوئی چیک کرنے والا ہے اور دن بدن رانگ سائیڈ پر ڈرائیونگ کرنے والوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ٹریفک پولیس والے اپنے موبائلز پر معروف شاہراہوں پر کھڑے تو ہوتے ہیں لیکن یہ رانگ سائیڈ ڈرائیورز بڑے ڈھٹائی سے اْن کے پاس سے گزر جاتے ہیں اور یہ اْنہیں آنکھ اْٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تو کیا اس سے لوگوں کی جان کو خطرہ نہیں ہے۔ ہیلمٹ کی پابندی تو ڈرائیور کی اپنی زندگی کی حفاظت کیلئے ہے لیکن رانگ ڈرائیونگ سے تو رائٹ سائیڈ سے آنیوالے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں کیا آپ کو اْن کی جانوں کی فکر نہیں ہے؟ وزیراعظم صاحب میرا تیسرا سوال کراچی اور دیگر شہروں کی خستہ ترین عمارتوں کے حوالے سے ہے۔ ناجائز تجاوزات تو روزانہ کی بنیاد پر گرائی جاتی ہیں لیکن ان خستہ اور مخدوش عمارتوں کو کوئی چیک کرنیوالا نہیں۔ کیا ان میں رہنے پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ کراچی میں خستہ ترین عمارت کی چھٹی منزل کی تعمیر کی اجازت کس نے اور کیسے دے دی؟ کرایے پر دئیے جانے والوں گھروں کی خستگی اور معیار کو چیک کرنے کیلئے بھی کوئی کمیٹی تشکیل دیجئے اور یقین کیجئے ان مسائل کا نواز شریف کی واپسی سے مشروط ہونا ضروری نہیں ہے۔

مزیدخبریں