پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کی واپسی ہوئی ہے کئی ماہ تک اپنے قارئین سے دور رہنے کے بعد وہ نوائے وقت کے صفحہ تین پر اپنی تمام تر بے نیازیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے ہیں۔ برادرم نیازی صاحب کئی ماہ سے علیل ہیں۔ خرابی صحت کی وجہ سے وہ اپنے قارئین سے دور تھے۔ لمبے وقفے کے بعد ان کی واپسی ہوئی ہے یوں ایک مرتبہ پھر وہ اپنی بے نیازیوں کے ساتھ واپس آئے ہیں۔ دعا ہے کہ وہ تادیر اپنے کالموں کے ساتھ قوم کی رہنمائی کرتے رہیں۔ حکمرانوں کی خبر لیتے رہیں، نوجوانوں کے لیے امید کی کرن بنتے رہیں۔ اپنے جملوں سے مسکراہٹیں بکھیرتے رہیں۔ علالت کے دنوں میں بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری جو بھی ان سے ملنے جاتا رہا اگر وہ جاگ رہے ہوتے تو اپنی مخصوص انداز میں مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کرتے اور عیادت کے لیے آنے والوں کو بھرپور وقت دینے کی کوشش کرتے تھے۔
نیازی صاحب تو صحت یاب ہو چکے ہیں لیکن دنیا کورونا وائرس کے خطرے سے دوچار ہے۔
گزشتہ برس دسمبر میں چین سے سامنے آنے والا کورونا وائرس اب تک دنیا کے ایک سو ستائیس سے بھی زائد ممالک تک پھیل چکا ہے۔عالمی ادارہ صحت کورونا وائرس کو عالمگیر وبا قرار دے چکا ہے جس سے اب تک پانچ ہزار سے زائد افراد ہلاک،ایک لاکھ چونتیس ہزار سے زائد متاثر ہو چکے ہیں۔ جاپان میں کورونا کے چھ سو نوے سے زائد مریض سامنے آ چکے ہیں جبکہ ڈیڑھ درجن سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ نے عالمی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنیا بھر میں معمول کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ جہاں جہاں کورونا وائرس نے اپنے پنجے گاڑے ہیں وہاں ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مذہبی، ثقافتی، سیاسی، تجارتی اور تعلیمی سرگرمیوں سمیت تمام سرگرمیاں معطل کر دی گئی ہیں۔ سعودی عرب کی حکومت نے عمرے کی ادائیگی پر جب کہ ایران نے نماز جمعہ کے اجتماعات پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ امریکہ نے کھیلوں کی تمام سرگرمیوں کو معطل کر دیا ہے جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں برس ہونے والے اولمپک مقابلوں کو ایک سال تک ملتوی کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں کہ خالی سٹیڈیمز کے بجائے مقابلوں کا ملتوی ہونا بہتر ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر اولمپک مقابلے متاثر ہونے سے لگ بھگ ستر ارب ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے انڈین پریمیئر لیگ کے میچز بھی پندرہ اپریل تک ملتوی کر دیے گئے ہیں۔کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی اہلیہ صوفی ٹروڈو بھی اس سے متاثر ہوئی ہیں۔ چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ سے ملاقات کرنے والی آسٹریلین وزیرداخلہ میں کورونا وائرس، اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں فلپائنی سفیر، کی تصدیق ہوئی ہے۔ آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والے آسٹریلوی اداکار ٹام ہینکس اور انکی اہلیہ بھی اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ پاکستان سپر لیگ میں شامل کئی غیر ملکی کھلاڑیوں نے واپسی کا فیصلہ کیا ہے خوش آئند بات یہ ہے کہ ان کھلاڑیوں نے کورونا وائرس کے بجائے ممکنہ سفری مشکلات کے باعث وطن واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔ کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کا شیڈول بھی تبدیل کر دیا ہے جبکہ باقی ماندہ تمام میچز میں شائقین کے داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے بنگلہ دیش کرکٹ بورڈ نے اپنی ٹیم کو بھی پاکستان نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بنگلہ دیش کی ٹیم نے انتیس مارچ کو کراچی پہنچنے کے بعد تیس اور اکتیس مارچ کو پریکٹس سیشن میں حصہ لینا تھا جبکہ یکم اپریل کو واحد ایک روزہ میچ بعد میں پانچ سے نو اپریل تک نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ٹیسٹ میچ کھیلا جانا تھا۔
دنیا بھر میں فلائٹ آپریشن بری طرح متاثر ہو چکا ہے۔ یورپ والے امریکہ نہیں جا رہے، امریکہ والے یورپ نہیں آ سکتے۔ دنیا لاک ڈوان کی طرف بڑھ رہی ہے۔ کہیں بھی بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا گوکہ متاثرین صحت یاب بھی ہو رہے ہیں لیکن کورونا سے متاثر ہونے والوں کی تعداد بھی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ ہر قسم کی آمدورفت بند ہونے سے مستقبل قریب میں کئی خطرناک قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان کو بھی کورونا وائرس سے خطرہ ہے۔ آج نہیں تو کل پاکستان کو بھی اپنے بارڈرز بند کرنا پڑیں گے۔ انہی صفحات پر کئی روز قبل ان خطرات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ سب سے پہلے تجارت نہیں انسانی جانوں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ حکومت کو ایسے اقدامات بروقت کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی کوششوں سے ملک میں ابھی تک کورونا وائرس کے خطرے کی وجہ افراتفری تو نہیں پھیلی لیکن اس کے ساتھ تیز تر اور موثر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت کو اس معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی نرمی اور رعایت نہیں برتنی چاہیے۔ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی اس مشکل وقت میں معمول سے زیادہ متحرک رہنے کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اس حوالے سے بہت پریشان اور خوف میں مبتلا ہیں لیکن پاکستان میں ایسی صورتحال نہیں ہے۔ اس کا کریڈٹ وزیراعظم عمران خان کو دیا جانا چاہیے۔ وزیراعظم مشکل وقت میں عوام کا حوصلہ بڑھانے کا فن بخوبی جانتے ہیں وہ عوام کو ناصرف خوف سے بچا سکتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس خطرناک وائرس سے مقابلے کے لیے بھی تیار کر سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کورونا سے بچاؤ اور حفاظتی اقدامات کے معاملے کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔ عوامی سطح پر حالات کا پرسکون رہنا حکومت کی اچھی حکمت عملی کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔ البتہ کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے بارڈرز اور فضائی سفر بارے بھی جلد بہتر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستانی سخت جان ہیں ایسی بیماریاں اور وبائیں پاکستانیوں کے حوصلوں کو پست نہیں کر سکتیں۔ اس بہادر قوم نے درجنوں سیلاب، زلزلے، دہشت گردوں کے حملے اور ڈینگی جیسی بیماریوں کا جوان مردی سے مقابلہ کیا ہے۔ بالخصوص لگ بھگ دو دہائیوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں قیمتی جانوں کو برداشت کرنے والی بہادر قوم کی قیادت اس وقت ایک مضبوط اعصاب کا مالک سپورٹس مین کر رہا ہے۔ دعا ہے کہ دنیا کو جلد اس وبا سے نجات ملے، پاکستان اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہے اور پاکستان کے تمام با اختیار، طاقتور اور کاروباری شخصیات اور ادارے عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کے بجائے عوامی خدمت کے جذبے سے کام کریں۔