مکرمی! زندگی کی سرپٹ دوڑ میں نئی نسل نے جن بے توقیر اور اہانت آمیز اصولوں کواپنا لیا ہے اس نے قوم کی مجموعی زندگی پر سوالیہ نشان اٹھا دئیے ہیں۔ ہمیں بڑے نقصان سے بچنے کے لیے جلد ان تحقیر آمیز اور بے ادب رویوں کو ترک کر کے اپنے اسلاف کی صدقِ دل سے پیروی کرنی چاہئے تاکہ نہ صرف اپنے خالق اور اس کے کریم رسول ؒؐ کی خوشنودی کے مستحق ٹھہریں بلکہ اس دنیاکو بھی مروت اور ادب و احترام کا مرکز بنانے میں اپنا کرداراداکریں۔ یہ یاد رکھیں کہ جس زندگی میںحسن نہیں وہ قرآنی قالب میں نہیںڈھل سکتی۔ یہ مقامِ توقیر و تعظیم اورقدرو منزلت صرف ادب وآداب اور خوش اطواری سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایا ہے:
خموش اے دل بھری محفل میں چلانا نہیں اچھا ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں
اللہ تعالیٰ نے سورۃ ’’الحجرات‘‘ میںبارگاہ نبویؐ کے آداب سکھائے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولؐ کے آگے پیش قدمی سے منع فرمایا ہے۔ مزید یہ بھی حکم دیا ہے کہ اپنی آواز نبیؐ کی آواز سے بلندنہ کرو اورنہ نبی ؐ کے ساتھ بلند آواز سے بات کرو جس طرح تم آپس میں کرتے ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا ہوا سب غارت ہو جائے اور تمہیں خبر تک نہ ہو۔ حضرت علی ہجویریؒ ’’کشف المحجوب‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’تارکِ ادب ،اخلاق محمدیؐ سے بہت دورہوتا ہے۔‘‘
ہمارے خالق و مالک اورہمارے رسولؐ تو مجسم رحیم و کریم ہیں تو ہم اپنے طرزِ عمل میں کیوں تہذیب و توقیر اور ادب کا مظاہرہ نہ کریں۔ یہی تعظیم، ادب اور محبت انسان کو ہدایت تک لے جاتی ہے۔ یادرکھیں کہ مال و نسب سے فضیلت نہیں ہوتی بلکہ فضیلت تو ’’علم و ادب‘‘ سے ہوتی ہے۔
اے زائر درگاہ نبیؐ ! جائے ادب ہے آئے نہ ترے دل کے دھڑکنے کی صدابھی
(محمد اسلم چودھری ، 84-A ابدالین سوسائٹی لاہور)