سری لنکا: برقعے پر پابندی، ایک ہزار سے زائد مدارس بند کرنے کا فیصلہ

سری لنکا نے پبلک مقامات پر مسلمان خواتین کے برقع پہننے پر پابندی اور ایک ہزار سے زائد مدارس بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے سری لنکا کے وزیر برائے پبلک سیکیورٹی ویراتھ ویراسیکرا نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کے پیش نظر یہ اقدام اٹھایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ برقع مذہبی انتہا پسندی کی علامت ہے جو حال ہی میں سامنے آیا ہے۔ اس سے قومی سلامتی متاثر ہورہی تھی اور اس پر مستقل پابندی عائد کرنا ضروری تھا۔

سری لنکا کے وزیر برائے پبلک سیکیورٹی کا کہنا ہے برقعے پر پابندی اور مدارس بند کرانے سے متعلق کہ انہوں نے کابینہ کے احکامات پر دستخط کیے تھے جسے اب پارلیمنٹ سے منظوری کروانے کی ضرورت ہے۔

سری لنکن حکام کا کہنا ہے کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ ملک میں برقعے پر پابندی کا نفاذ جلد ہوگا۔

حکام کے مطابق قومی تعلیمی پالیسی کو نظر انداز کرنے والے ایک ہزار سے زائد مدرسوں پر بھی پابندی لگائی جائے گی۔  سری لنکا میں اس سے قبل دوہزار انیس میں بھی برقع پر پابندی لگائی گئی تھی۔

سری لنکا کی جانب سے یہ اقدام دو سال قبل ایسٹر کے موقع پر گرجا گھروں اور ہوٹلوں پر حملے کے بعد سامنے آیا ہے۔

سال 2019 میں خودکش بمباروں نے کیتھولک گرجا گھروں اور سیاحوں کے قیام کرنے والے ہوٹلوں کو نشانہ بنایا تھا جس میں 250 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

ویراتھ ویراسیکارا کا کہنا ہے کہ حکومت نے ایک ہزار سے زائد اسلامی اسکول یعنی مدارس کو بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وہ مبینہ طور پر قومی تعلیم کی پالیسی کو پامال کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ “ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی اسکول کھول دے اور جو چاہے پرھا سکتا ہے۔ یہ حکومت کی تعلیمی پالیسی کے مطابق ہونا چاہیے۔ بہت سارے غیر رجسٹرڈ اسکول صرف عربی اور قرآن پاک پڑھاتے ہیں جو مناسب نہیں ہے”۔

سری لنکا مسلم کونسل کے نائب صدر حلیمی احمد نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اہلکاروں کو برقعے میں لوگوں کی شناخت میں دشواری پیش آرہی ہے تو شناخت کے مقاصد کے لیے چہرے کا نقاب اتارنے میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہر ایک کو اپنے عقیدے سے قطع نطر چہرے کو ڈھانپنے کا حق حاصل ہے۔ اسے صرف مذہبی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ حقوق کے نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں حلیمی احمد نے کہا کہ مدارس کی اکثریت حکومت کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ ہوسکتا ہے صرف پانچ فیصد مدارس ضابطے کی پاسداری نہیں کرتے ہوں جن کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔

واضح رہے کہ سال 2019 میں گرجا گھروں اور ہوٹلز پر عسکریت پسندوں کی جانب سے دھماکوں کے بعد بدھ مت کے اکثریتی ملک میں برقع پہننے پر عارضی پابندی عائد کردی گئی تھی۔

 
 

ای پیپر دی نیشن