پچھلے چند دنوں میں کئی میزائل داغے گئے، اپوزیشن نے آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد کا میزائل داغا تو بھارت نے ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد نو مارچ کو پاکستان کے علاقے میاں چنوں پر ایک میزائل داغا۔ میزائلوں کی ایک پوری بیٹری سابق صدر زرداری کی دسترس میں ہے ۔اب یہ پتا نہیں کہ عبدا لعلیم خان والا میزائل زرداری نے داغا یا خود بخود چل گیا ۔ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ چوہدریوں والا میزائل ٹھس ہو کر رہ گیا ہے۔ فضل الرحمٰن اور زرداری دونوں نے اس میزائل کو ناکارہ بنا دیا ہے ۔میزائلوں کے کچھ بٹن لندن سے کنٹرول کیے جا رہے ہیں وہاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کے اشاروں پر میزائل حرکت میں آتے ہیں یا اپنا راستہ بدلتے ہیں ۔
انڈیا کا میزائل نو تاریخ کو چلا لیکن پاکستانی عوام کو اس کی اطلاع چوبیس گھنٹے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی ہنگامی پریس بریفنگ کے ذریعے دی۔ انہوں نے چوبیس گھنٹے انتظار کرنا مناسب کیوں سمجھا اس کی معقول وجوہ ہو سکتی ہیں۔ایک تو یہ کہ پاکستان اس انتظار میں تھا کہ بھارت خود زبان کھولے اور اپنی غلطی اور کوتاہی کا اعتراف کرے۔پاکستان نے فوری رد عمل ظاہر نہ کرکے اسی صبر و تحمل کا ثبوت دیا ہے جس کا مظاہرہ اس نے بالاکوٹ پر بھارتی سرجیکل اسٹرائیک کا جواب دینے میں کیا تھا۔سوچ سمجھ کر جواب دینے کے اپنے فائدے ہیں۔ بالاکوٹ کے جواب میں ہمارے ہاتھ میں ابھی نندن آیا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اس کو چائے پلا کر رخصت کردیا تھا ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے نپے تلے الفاظ میں پریس بریفنگ سے خطاب کیا۔ان کا لب و لہجہ نہ تو نسیم حجازی کی طرح غیر معمولی جوش و جذبے سے لبریز تھا اور نہ ابن صفی کی طرح انہوں نے کسی تحیر خیز ڈرامے سے پردہ اٹھایا ۔انہوں نے اپنی طرف سے صرف ایک ہی نتیجہ نکالا کہ یہ بھارت کی کسی ٹیکنیکل غلطی کے نتیجے میں پاکستان میں آگیا ہے ۔انہوں نے بھارت کو مشورہ بھی دیا کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی اور ہنرمندی کی صلاحیتوں کو درست کرنے کی کوشش کرے ۔انہوں نے عوام کو بتایا کہ یہ ایک سپر سونک پروجیکٹائل تھا۔کیا عوام اسے اڑن طشتری سمجھتے مگر یہ اڑن طشتریوں کا زمانہ تو نہیں ہے ۔کیا عوام اسے ڈرون سمجھتے مگر ڈرون کی ٹیکنالوجی الگ ہے ۔ورنہ ڈی جی اسے ڈرون بھی کہہ سکتے تھے ۔سپر سانک کا مطلب بھی بتایا جا سکتا ہے کہ یہ آواز کی سپیڈ سے زیادہ رفتار کی چیز ہے۔ گوگل کہتا ہے کہ آواز کی سپیڈ بارہ سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد ہے تو ظاہر یہ ہوا کہ انڈیا نے جو چیز داغی وہ اس رفتار سے بھی زیادہ تیز تھی۔یہ پاکستان کی فضائوں میں تین منٹ چوبیس سیکنڈ رہی ہے اور اس دوران میں اس نے پاکستانی سرحد سے میاں چنو ںکا سفر طے کیا ۔ڈی جی نے انکشاف کیا کہ پاکستان نے اسے چالیس ہزا فٹ کی بلندی پر مانیٹر کر لیا تھا ،ڈی جی نے یہاں بھی انٹرسیپٹ کا لفظ استعمال کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان نے اس کو چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر دیکھ کر آگے بڑھنے سے روک دیا تھا ۔پریس بریفنگ میں موجود صحافیوں نے یہ سوال تو پوچھا کہ کیا فوج سیاست میں ملوث ہے لیکن ان جنگی وقائع نگاروں نے یہ نہیں پوچھا کہ پاکستان نے اس میزائل کا راستہ روکنے کے لیے کیا کوئی لڑاکا طیارہ استعمال کیا یا میزائل داغا ۔بہر حال یہ سوالات ضمنی ہیں لیکن ان کا جواب مل جائے تو لوگ پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں پر عش عش کر اٹھیں گے ۔
پاکستان نے اس واقعہ پر بھارت کے خلاف شکایت کی تو بھارت کی طرف سے جواب ملا کہ یہ غلطی ہوگئی ہے اور ٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے میزائل پاکستان میں جا گرا ہے ۔کیا کہنے کہ بھارتی میزائل میں ٹیکنیکل غلطی ہوجائے تو اس کے کمپیوٹر کو پاکستان کا راستہ نہیں بھولتا ۔
بھارت کی میزائل اور ایٹمی ٹیکنالوجی پر عالمی ماہرین سو فیصد بھروسہ نہیں کرتے ،بھارت کے کئی میزائل تجربے کے دوران یا تو بٹن دباتے ہی پھٹے ہیں یا منزل تک پہنچنے سے قبل ہی پھٹے ہیں ۔ بھارت کی نیوکلیئر اور ایٹمی ٹیکنالوجی مانگے تانگے کی ہے۔ میں سن دو ہزار میں ایک امریکی دعوت پر بھارتی اور پاکستانی ایڈیٹروں کے وفد میں شامل ہو کر امریکہ گیا تو ہمیں کیلی فورنیا میں مونرے انسٹی ٹیوٹ بھی لے کر جایا گیا۔ جہاں پی ایچ ڈی کرنے والے اسکالروں نے ڈیرہ لگایا ہوتا ہے۔ ہمارے وفد میں چار پاکستانی ایڈیٹر تھے اور چار بھارتی ایڈیٹر۔ ہمیں وہاں لیکچر دینے کے لیے ایک ہندو سکالر کو منتخب کیا گیا جس کے آبائو اجداد سیالکوٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ ہندو سکالر میزائل اور ایٹمی ٹیکنالوجی کا خصوصی ماہر تھا ۔اس نے یہ کہہ کر ہمیں چونکا دیا کہ بھارت کے ایٹمی دھماکے مشکوک حیثیت رکھتے ہیں اور اس کا میزائل پروگرام بھی نقائص سے پاک نہیں۔ جبکہ پاکستان کے ایٹمی دھماکے ہر لحاظ سے شفاف تھے اور پاکستان کو اپنے میزائل پروگرام پر اس قدر اعتماد ہے کہ اس نے اپنے پہلے غوری میزائل کا تجربہ کرتے ہوئے اسے جہلم کی پہاڑیوں سے داغا اور یہ پاکستان کی پوری آبادی کے اوپر سے سفر کرتا ہوا اپنے ٹارگیٹ پر جا کر گرا ۔پاکستان کے لیے اس طرح کے کلمات سن کر میرا سینہ فخر سے تن گیا۔ پاکستان میں کوئی میزائل تجربہ آج تک ناکامی سے دوچار نہیں ہوا اور اس کا ایٹمی پروگرام بھی ہر لحاظ سے محفوظ ہاتھوں میں ہے۔ امریکہ نے پروپیگنڈا تو بہت کیاکہ عالمی دہشت گردوں کے پاس ایٹمی حیاتیاتی اور کیمیائی اسلحہ موجود ہے۔ امریکہ نے تو ایک برطانوی خفیہ رپورٹ پر کہ صدام حسین کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں اس کے ملک پر ہلہ بول دیا تھا اور عراق کا فالودہ نکال دیا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی پلیئر نے بعد میں اعتراف کر لیا تھا کہ یہ رپورٹ غلط اور من گھڑت تھی اور جان بوجھ کر بنائی گئی تھی ۔امریکہ نے افغانستان پر بھی چڑھائی اس لیے کی تھی کہ وہ اسامہ کے ایٹمی ،حیاتیاتی اور کیمیائی اسلحے کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے افغانستان کا توڑا بوڑا بنا دیا مگر جب امریکہ نے دعویٰ کیا کہ اس نے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ کے مکان ایبٹ آباد پر حملہ کرکے اس کو شہید کر دیا ہے تو اس کے مقابلے میں اسامہ کسی توڑے دار بندوق سے بھی جوابی فائر نہیں کر سکا تھا ۔یہی حال صدام کا ہوا جب اسے ایک غار سے کھینچ کر باہر لایا گیا تو اس کے کانپتے ہاتھوں میں ایک پستول تھا جسے چلانے کی اس میں ہمت نہیں پڑی۔
یہ تو خیر گزری کہ بھارتی میزائل اسلحے سے لیس نہیں تھا ورنہ تباہی زیادہ ہوتی اور بھارت اور پاکستان ایک بار پھر آمنے سامنے ہوتے ۔یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ بھارت کی جو بھی جنگی مشینری راستہ بھولتی ہے وہ پاکستان ہی کا رخ کرتی ہے ۔ابھی کچھ عرصہ پہلے ایک بھارتی آبدوز پاکستانی پانیوں میں گھس آئی تھی جسے ہم نے چیلنج کیا تو وہ دم دبا کر بھاگ گئی ۔بھارت پاکستان سے وقفے وقفے سے چھیر خانی کر رہا ہے ۔پاکستان اس کے ارادوں سے غافل نہیں ہے ۔ہم بہت عرصہ پہلے بھارت کو للکار چکے ہیں کہ ہم کولڈ سٹارٹ یا ہاٹ سٹارٹ ہر صورت میں مقابلے کے لیے تیار ہیں ۔ویسے بھارت کوئی ٹیکنیکل غلطی کرے اور اپنی کوئی جنگی مشین چین کی حدود میں داخل کرکے دکھائے ،امریکہ نے ایک زمانے میں ہمارے یہاں یو ٹو کا جنگی اڈہ قائم کر رکھا تھا جہاں سے روس کے خلاف پروازیں ہوتی تھیں۔ روس نے آئو دیکھا نہ تائو ایک روز امریکی یوٹو جاسوس طیارے کو مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو زندہ گرفتار کرکے ٹی وی پر پیش کردیا ۔امریکہ کا وہی حال ہوا جو ابھی نندن کی گرفتاری پر بھارت کا ہوا تھا ۔
گمراہ بھارتی میزائل کو پاکستان کا راستہ یاد رہا
Mar 14, 2022