دسمبر2014ء میں پشاورکے آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کے شدید حملے کے نتیجے میں بچوں سمیت140سے زائد افراد کی شہادت کے بعد حکومتی سطح پر ایک نیشنل ایکشن بنایاگیا جس پر سیاسی جماعتوں سمیت سب سٹیک ہولڈرز کا اتفاق تھا، اس ایکشن پلان کے نتیجے میں ملک میں دہشت گردوںکے خلاف آپریشن ردالفساد شروع کیاگیا جس کے دوررس نتائج بھی حاصل ہوئے اورملک میں دہشت گردی پر کافی حد تک قابوپالیاگیا اس کے بعد ملک مین سیاسی عدم استحکام جس کے نتیجے میں حکومتی عملداری کافی حد تک متاثرہوئی، نیشنل ایکشن پلان پربھی من وعن عمل نہیں ہوسکا جس کے نتیجے میں صورت حال پھر عدم استحکام کی طرف بتدریج گامزن ہے، افغانستان میں طالبان کے دوبارہ برسراقتدار آنے بعد قوی امیدتھی کہ وہاں سے پاکستان کے خلاف کی جانے والی دہشت گردی کی کارروائیاں ختم ہوجائیں گی، مگربدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا اور آج بھی افغان سرزمین ہمارے خلاف بھرپور طور پر استعمال کی جارہی ہے، ہندوستان ایک منصوبے کے تحت بلوچستان میںجنگ کی سی صورتحال پیدا کرنے کے درپے ہے اور تحریک طالبان پاکستان اور آئی ایس (خراسان) جیسے دہشت گرد گروپس کی بھرپور مدد کے ذریعے ہمیں نقصان پہنچانے میں ہروقت مصروف ہے۔
ایسے میں حکومت وقت کا فرض بنتاہے کہ وہ روایتی بیانات اور ردعمل سے باہر نکلیں اور ملک کے اندر ایک وسیع اتفاق رائے پیدا کرے تاکہ ایک مضبوط حکمت عملی کے تحت شدید اندرونی وبیرونی خطرات کا مقابلہ کیاجاسکے۔ یہ اتفاق رائے پیدا کرنا حکومت اور بالخصوص وزیراعظم کا فرض اولین ہے جس کیلئے انہیں اپنی ذات اور انا سے بڑھ کر سوچنا اور عمل کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ پر اس مسئلے پر ایک سیرحاصل بحث کی جائے اورپھر سب کے اتفاق سے ایک لائحہ عمل مرتب کیاجائے نہ کہ سیاسی رسہ کشی اورنفرتوںکو ہوادے کرصورتحال کومزید خراب کردیاجائے۔
قوموں کو اپنی بقاء اور سلامتی کیلئے آزمائش وابتلاکے کئی ادوار سے گزرنا پڑتاہے اور پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں کیاجاسکتاہے جس کے بہادر اورغیورعوام اس کی تخلیق سے لے کر آج تک مخالفتوں اور مخاصمتوں کے طوفان سے نبرد آزما ہیں۔ آج بھی اتنے برس کے بعد پاکستان اپنی بقاء کی جنگ لڑرہاہے۔ ایک ایسی جنگ جس میں اسے بیرونی سے زیادہ اندرونی خطرات لاحق ہیں اس جنگ میں جہاں سیکورٹی فورسز قربانیوں اور کامرانیوں کی ایک لازوال تاریخ رقم کررہی ہیں وہیں عام پاکستان بھی ارض پاک پر اپنی متاع حیات قربان کرکے جرات وبہادری کے نئے انداز روشناس کروارہے ہیں۔
پریڈلین کا سانحہ بھی ایک ایسی خونچکاں داستان ہے جہاں بے گناہ نمازیوںکو انتہاپسندی کے تندور میںاس لئے جھونک دیاگیاکہ اسے ایک خاص سوچ اور عمل کا بدلہ کہاجاسکے۔یہ ایسے لاتعداد اور دوسرے واقعات جن کا سامنا ہم پچھلے چند سالوں سے مستقل کررہے ہیں انسانیت سوزی کی ایسی بدترین مثالیں ہیں جوکسی بھی معاشرے کیلئے ناسور اورلمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ شہیدان وطن کا ذکرکرنا جن کا بہتاہوالہو ارض پاک کی آزادی کا ضامن ہے۔اس عزم وہمت کی جو ہرمسلمان کا خواب ہے اس موضوع پر لکھنے کو دل یوں بھی چاہتاہے کہ ایک قرض اداکرسکوں اس احسان کا جوان شہداء کی نسبت سے مجھ جیسوں کو حاصل ہوا۔ ہم انہیں کیسے بھلاسکتے ہیں جنہوں نے دارالامان میں خون سے حمیت خدائی کو آواز دی، جنہوں نے اپنے آج کو ہمارے کل کیلئے قربان کردیا اورجنہوں نے سجدہ عظیم کرنے کا سبق ہمیں دیا۔ اس المناک سانحہ کے ایک ایک کردار کو تحریر کالبادہ اوڑھاکر اس خونی دوپہر کوہر مکین کی نظر سے قلمبندکرکے ایک انتہائی قابل قدر فرض ادا کروں گی۔ میرا کالم کیاہے، ایک دکھ، امنگ،ایثار، امید، محبت اور قربانی کی ایسی لازوال داستان ہے جس میں ہم سب کو اپنا آپ، اپنا گھر، محلہ اور معاشرہ نظر آتا ہے۔ میں دردمنددل رکھنے والی ماں، حساس ذہن کی مالک بہن اورجانفشانی سے لبریز وہ بیٹی ہیں جو خود اس قیامت صغریٰ کے اثرات سے نہ صرف نبرد آزما ہیں بلکہ اپنے بھتیجے اور دوسرے زخمیوں کی تیمارداری اور ان کے والدین کی دلجوئی میں دل وجان سے شامل رہی ہوں۔
میری تحریرمیں ان پیاروں کا جوبلاتخصیص جوان، بوڑھایابچہ خانہ خدا میں ابدی سجدے بجا لائے۔ میری تحریر اپنے آپ سے بات کرنے والی، اپنوں کا دکھ محسوس کرنے والی اور اپنوں کا دکھ بانٹنے والی ایک ایسی کاوش ہے۔