محمد رفیق تارڑ: فرشتہ صفت انسان

محمد رفیق تارڑ 7مارچ 2022ء کو پیر کے دن طویل علالت کے بعد92سال کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔" بیشک ہم سب اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف جانے والے ہیں"۔ محمد رفیق تارڑ سے میرے کئی رشتے ہیں ، ایک رشتہ صدر پاکستان کے حوالے سے تھا کہ صدر پاکستان کے منصب پر فائز شخص بظاہر تو کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا نمائندہ ہوتا ہے لیکن دوسرے لفظوں میں وہ پوری قوم کا باپ ہوتا ہے ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے بتاتا چلوں کہ یہ 2003ء کی بات ہو گی کہ وفاقی محکمہ تعلیم کے ماتحت ادارے اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل خالد اقبال یاسر صاحب نے ایک ملاقات میں مجھے حکم دیا کہ آپ پاکستان کے سربراہان مملکت پر کتاب لکھیں ہمارا ادارہ یہ کتاب شائع کرے گا۔ چونکہ انہی دنوں میری ایک اور کتاب "دس نشان حیدر"اردو سائنس بورڈ کی جانب سے شائع ہوچکی تھی اور خالد اقبال یاسر میرے طرز تحریر اور واقعاتی بیان کو گہری نظر سے دیکھ چکے تھے، شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے یہ کتاب لکھنے کا فریضہ مجھے سونپا ۔ باقی تمام صدور کی حالات زندگی اور دور حکومت پر مختصر آرٹیکل تیار کرلیے گئے ،ابھی محمد رفیق تارڑ کے حوالے سے لکھنا باقی تھا ۔ میں ایک دن واقع جوہرٹاؤن ان کے گھر پہنچا اور آنے کا مقصد بیان کیا ۔انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا میں تو حادثاتی طور پر صدر بنا تھا آپ میرے بغیر ہی کتاب چھاپ لیں ۔ میں نے نہایت ادب سے گزارش کی کہ حضور تاریخی اعتبار سے صدر مملکت کی فہرست میں آپ کا نام شامل ہے ، اسے کسی بھی طرح مٹایا نہیں جا سکتا ۔ بہرکیف بہت مشکل سے وہ انٹرویو دینے پر آمادہ ہوئے۔ورنہ وہ اپنی گوشہ نشینی ختم کرنے کو ہرگز تیار نہ تھے ۔
حسن اتفاق سے انہی دنوں میری کتاب" قومی ہیرو" حصہ دوم شائع ہوکر منظر عام پر آئی تھی جس میں میاں محمد شریف کے حالات زندگی اور کاروباری دنیا میں ترقی کے حوالے سے ایک کہانی شامل تھی ۔ چونکہ ان دنوںنواز شریف اور شہبازشریف مشرف کے زیر عتاب ہوکر سعودی عرب میں مقیم تھے ،مجھے رفیق تارڑ صاحب نے بتایا کہ وہ عمرہ کی سعادت حاصل کرنے ارض مقدس جا رہے ہیں اور شریف برادران سے بھی ملاقات ہوگی تو میں نے وہ کتاب ان کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کردی کہ اس کتاب کو شریف برادران تک پہنچا دیں۔ جو انہوں نے پہنچا دی۔ ان ملاقاتوں کے دوران میں نے انہیں ایک مخلص اور بہترین انسان پایا۔محمد رفیق تارڑ 1929ء میں پیرکوٹ گگھڑ منڈی ضلع گوجرانوالہ میں ایک ممتاز زمیندار چوہدری سردار خاں تارڑ کے گھر پیدا ہوئے۔ انٹر تک تعلیم گگھڑ منڈی کے تعلیمی اداروں میں حاصل کی ۔1954ء میں پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا اور گوجرانوالہ کچہری میں باقاعدہ پریکٹس شروع کردی ۔ 1975ء میں لاہور ہائی کورٹ میں بطور جسٹس تعینات ہوئے ۔1985ء میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بطورمسلم لیگی رہنما سینیٹر منتخب ہوئے۔1998ء میں صدر مملکت منتخب ہوئے۔ان پرایک الزام یہ لگتاہے کہ مارشل لاء کے نفاذ کے وقت انہوں نے منصب صدارت سے استعفیٰ کیوں نہیں دیا۔ان کے پریس سیکرٹری عرفان صدیقی اس بات کا جواب دیتے ہیں ۔جب مشرف نے رفیق تارڑ سے منصب صدارات پر قائم رہنے کی درخواست کی تو انہوں نے انکار کردیا لیکن اسی دن میاں شریف کا پیغام ان تک پہنچ گیاکہ آپ اپنے عہدے پر فائز رہیں،ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔پھر یہی پیغام نواز شریف کی طرف سے بھی انہیں پہنچایا گیا۔پھر 2001 ء میں تین فوجی جرنیلوں نے اکھٹے ہوکر رفیق تارڑ سے کہا اب مشرف صدر پاکستان بننا چاہتے ہیں، اس لیے آپ استعفی دے دیں ۔تارڑ صاحب نے کہا اصولی طور پر میں استعفی قومی اسمبلی کے سپیکر کو دینے کا پابند ہوں لیکن آپ نے نہ اسمبلی چھوڑی ہے اور نہ سپیکر۔بعد میں مشرف کو مخاطب کرکے تارڑ صاحب نے کہا آئینی طور پر آپ میرے ماتحت ہیں ، میں کس طرح اپنے ماتحت کو استعفی دوں ؟ اگلے دن مشرف خود ایوان صدر آئے اور منصب صدارت پر فائز ہونے کی ضرورتوں سے آگاہ کیا جس پر محمد رفیق تارڑ نے کہا میں استعفی نہیں دوں گا، میں نتائج کے لیے تیار ہوں۔ اس طرح جنرل پرویزمشرف نے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے منصب صدارت پر قبضہ کر لیا۔ مرحوم اپنی زندگی کے آخری سالوں میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے چیرمین کے عہدے پر فائز بھی رہے۔ وہ ملک بھر میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے۔ آمین 

ای پیپر دی نیشن