ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
آخر کارتوشہ خانہ کا ریکارڈ جاری کر دیا گیا۔ یہ ابھی اکیس سالہ ریکارڈہے۔ اس ریکارڈ نے ہمارے ہر شریف، حاجی، متقی، دیانتدار، ایماندار اور نیک سیاستدان کے حریصانہ چہروں سے نقاب ہٹا دیا ہے۔ یہ ریکارڈ اتنا شرمناک ہے کہ بیان کرتے ہوئے تکلیف ہو رہی ہے۔ لالچ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ انِ لوگوں نے تو لالچ کے ریکارڈ تو ڑے ہیں۔اصولاً تو شہ خانہ میں لوٹ مار کرنے والوں کا با ئیکاٹ ہو نا چا ہیے۔ یہ کو ئی مذاق نہیں ہے کہ یہ سیاستدان جب حکمران بنیں تو ایک طرف قوم پر ناروا اور ظا لمانہ ٹیکس لگا کر غریب عوام کا خون چُوسیں۔ قومی خزانے میں نقب لگا ئیں، قومی ادارے بیچ کر کھائیں۔ ہر کام کے کروڑوں اربوں کے کمیشن کھائیں۔ بیرونی امدادیں کھائیں۔ آئی ایم ایف اور دیگر ممالک سے وصول کیے ہو ئے قرضے کھائیں۔ اُس کے بعد تو شہ خانہ کے بیش قیمت تحائف چند کوڑیوں میں خرید کر کھا جا ئیں۔ آپ چاروں اسمبلیوں، قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کے حقیقی اثا ثے دیکھیں۔ ہر آدمی اور ہر عورت جاگیردار، زمیندار، وڈیرا، سردار ہے۔ ان کی مربوںاور ایکڑوں میں زمینیں ہیں۔ انکے ذاتی بنک، فیکٹریاں ملیں، کارخانے، صنعتیں، پلازے، کالج یونیورسٹیاں، چینلز، ائیر لائنز، محلات، جاگیریں اور اربوں کھربوں کے اثاثے ہیں۔ غریب سے غریب رُکن اسمبلی بھی کروڑوں کا مالک ہے۔ نجانے کس کس کے نام پر جائیدائیں بنا رکھیں ہیں۔ پرانے وقتوں میں ایک قا رون تھا جس کے پاس خزانے تھے لیکن پاکستان میں ہر رُکن اسمبلی چالیس سال سے کم کا نہیں ہے۔ زیادہ تر سیاستدانوں کی عمریں 55سے 75سال ہیں۔ توشہ خانہ میں نقب لگا نے والوں میں زیادہ تر کی عمر ستر برس سے زائد ہیں۔ کیا اتنے حساس، قومی نوعیت اور عزت والے مسئلہ پر سوئو موٹو لینا بنتا ہے کہ نہیں؟ اور ان تمام تحائف جو انھوں نے ان اکیس سالوں میں خریدے ہیں یا مفت لیے ہیں ، اُن تمام کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق ان سے رقوم کی ریکوری کروا کر قومی خزانے میں جمع کرائی جائیں تاکہ کچھ تو ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔ لیکن اسِ ملک کا کوئی وارث ہے کہ نہیں؟ اس ملک میں غدر مچانے ، افرا تفری اور انتقامی سیاست کرنے، قومی اثا ثے لوٹ کر کھانے والوں کا کو ئی احتساب ہے یا نہیں؟ اگر یہی لوٹ مار چین، جاپان، روس، امریکہ، کینیڈا، فرانس یا جرمنی میں ہو تی تو سب جیل ہوتے، پھانسی پر لٹکا دئیے جاتے یا ان سب کو سر عام گولی مار دی جاتی۔ حیرت اور صدمے کی بات ہے کہ جو لوگ ذاتی طور پر ارب پتی بلکہ کھرب پتی ہیں۔ اُن میں اتنا طمع اور لالچ ہے۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ تو شہ خانے کا ریکارڈ پبلک ہونے پر پاکستان کا امیج کتنا تباہ ہوا ہوگا۔ وہ غریب، سفید پوش اور متوسط طبقہ جو اپنی ہڈیاں رگڑ کر چار پیسے کماتے ہیں تو ٹیکسوں کے نام پر یہ اُن سے وہ بھی چھین لیتے ہیں۔ اتنی مہنگی بجلی گیس پٹرول اور اشیائے خوردو نوش خریدنا عوام کے بس میں نہیں رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آج لوگ دال سبزی خریدنے کے متحمل نہیں رہے ہیں۔ لوگ چائے پیاز اچار چٹنی سے روٹی کھا رہے ہیںاور یہ اشرافیہ عیاشیاں کر رہی ہے۔ چوریاں کر رہی ہے، غبن کر رہی ہے۔ کیااس کرپٹ اشرافیہ کو عدالت بھی سزا دینے کی مجاز نہیں ہے؟ ذرا توشہ خانہ کا شرمناک ریکارڈ تو سنئیے۔ نوازشریف نے بیالیس لاکھ کی گاڑی چھ لاکھ میں ، زرداری نے تین لگثرری گا ڑیاں دو کروڑ میں، عمران خان نے دس کروڑ کے تحائف دو کروڑ میں، شا ہد خا قان عباسی نے دو کروڑ کے تحائف پنتا لیس لاکھ میں، کلثوم نواز نے پانچ کروڑ کے تحائف ایک کروڑ میں حا صل کیے۔ شہبازشریف کا کافی ریکارڈ ابھی ظا ہر نہیں ہوا لیکن انہوں نے شہد، خنجر اور قیمتی شو پیس مفت اُڑائے ہیں۔ شو کت عزیز نے سینکڑوں اشیاء بغیر قیمت ادا کیے حا صل کیں۔ آخر جوان بیٹے سے ہاتھ دھوئے۔ خدا نے حساب برابر کر دیا۔ چوہدری شجاعت نے بھی دو لاکھ کے چار تحائف اٹھائیس ہزار میں خریدے۔ صدر عارف علوی نے چھ لاکھ کی تسبیح ، سوا لاکھ کا پین، دو لاکھ کے پرفیوم، دو لاکھ کی کلاشنکوف رکھی۔ شیخ رشید نے پچا سی ہزار کی لیڈیز گھڑیاں کیوں لیں؟ سوال یہ ہے کہ حکمرانوں کو کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ قومی خزانے پر نقب لگا ئیں۔ ڈا کے ڈا لیں۔ لو ٹ مار کریں۔ عوام مہنگا ئی سے مر رہے ہیںلیکن ان لوگوں کے الّلے تلّلوں میں کو ئی کمی واقع نہیں ہو ئی۔ کئی قومیں اسی لیے برباد ہو ئیں کہ اُنکے حکمران ظالم، کرپٹ اور عیاش تھے۔ ان حکمرانوں کی عبرتناک کہا نیاں تاریخ کے صفحات میںمحفوظ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عدالتیں اتنے گھنا ئونے جرائم پر ایکشن کیو ں نہیں لیتی۔یہ سوال پو ری قوم کرتی ہے۔