سید عارف سعید بخاری
Email:arifsaeedbukhari@gmail.com
ملازمت کی غرض سے گھروں سے نکلنے والی بچیوں اور خواتین کو پریشان کرناایک معاشرتی المیہ بن چکا ہے ۔عورت کوحقیقت میںاپنی ماں ،بہن ،بیٹی یا بہو کا درجہ دینے والوں کی شرح برائے نام ہے ۔گھروں سے باہر نکلنے والی بچیوں کے بارے میں ایک تاثر بہت ہی پختہ ہوچکا ہے کہ شایدوہ شوقیہ گھروں سے نکلتیںہیں ۔جبکہ اکثر بچیاں مالی مسائل، ماں باپ ،بہن بھائیوں کی نصیحتیں یا گھرکے کاموں سے جان چھڑانے کیلئے دفاتر کا رخ کرتی ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ معاشرے میں ایسی لڑکیاں بھی ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں جو اپنے بیمار باپ ،بیوہ ماں یا اپنے بہن بھائیوں کی کفالت کی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے گھروں سے باہر قدم رکھتی ہیں ۔گھروں سے شوقیہ باہر نکلنے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہے ۔المیہ یہ ہے ہر دوسرا شخص لڑکیوں کو بُری نظر سے ہی دیکھتا ہے ۔کوئی لڑکی کے اندرونی و گھریلومعاملات اور مجبوریوں کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ہر دوسرا شخص چاہے وہ جوان ہو یا بوڑھا ،وہ لڑکی ہویا شادی شدہ خاتون کو چکر میں دینے میں لگا رہتا ہے۔ کوئی ملازمت کی خواہشمند ہوتو ،اسے بھی لوگ غلط راہوں کا مسافر بنا دیتے ہیں ۔خیبر سے کراچی تک تمام چھوٹے بڑے شہروں میں بد نیت لوگوں نے شادی و روزگار دفاتر بنا رکھے ہیں ۔ان دفاتر کو بنانے میں کوئی زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت بھی نہیں پڑتی ۔10 سے15 ہزارروپے تک ایک کمرہ مع واش روم کرائے پر مل جاتا ہے ۔دو چار ہزار روپے یوٹیلیٹی بلز پر خرچ آتا ہے ۔بندہ دفتر کھول کر بیٹھ جاتا ہے ۔اخباروں میں ’’ضرورت لیڈی سٹاف ‘‘یا’’ضروت لیڈی سیکرٹری ‘‘کا اشتہاردیتا ہے ۔اور انٹرویو کے لئے آنے والی ہردوسری لڑکی کو پھانسنے کی کوشش کرتا ہے ۔اخبار میں ’’ضرورت رشتہ ‘‘ضرورت اسٹاف‘‘ یا’’ ضرورت لیڈی سیکرٹری ‘‘کے بیشتر اشتہارات شائع کروانے کا مقصد محض لڑکیوں کو جال میں پھنسانا ہے ۔اب تک ان اشتہارات کی بدولت کتنی ہی لڑکیوں کوزیادتی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے ۔اس دھندے کا ایک اور تاریک پہلو یہ ہے کہ مقامی تھانے کے ذمہ داران کو خوش کرنے کیلئے بھی انہی کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔اور یہ لوگ ’’بھتے‘‘ کی رقم الگ سے وصول کرتے ہیں ۔بہت سے پولیس افسران ان لوگوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ یہ دھندہ یوں تو سارے ملک میں منظم طریقے سے چل رہا ہے لیکن کراچی ،لاہور ، فیصل آباد ،پشاورکے مقابلے میں جڑواں شہروں راولپنڈی اسلام آباد میں یہ پہلے نمبر ہے یہاں چونکہ حکومت ہے ،سرکاری دفاتر ہیں ،اس لئے ملازمت دلانے کی آڑ میںمنظم گروہ اسی دھندے میں ملوث ہیں ۔روزانہ بیسیوں واقعات ہوتے ہیں لیکن چند ہی رپورٹ ہوتے ہیں ۔اور جو رپورٹ ہوتے ہیں ان میں بھی متاثرہ لڑکیوں کوسوشل میڈیا اور ٹی وی چینلزوالے ریٹنگ کے چکر میں ذلیل و خوار کرکے رکھ دیتے ہیں،انہیں انصاف تو ملتا نہیں البتہ انصاف کی فراہمی میں مددگار افرادبھی ان لڑکیوں کی عزت کا جنازہ نکالنے میں لگ جاتے ہیں ۔بالآخر مایوس ہو کر متاثرہ لڑکیاں اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتی ہیں یا اس نیٹ ورک کا حصہ بن کر اپنی بقیہ زندگی گذار دیتی ہیں ۔وہ لڑکیاں جو کسی کے جال میں نہیں پھنستیں ،انہیں یہ لوگ ’’شادی‘‘ کے چکر میں پھانس لیتے ہیں ۔انہیں نکاح کا جھانسہ دیا جاتا ہے ۔
اسی سوچ و فکر کے حامل واقعات آئے روز دیکھنے اور سننے میں آ رہے ہیں ،سچ تو یہ ہے کہ بعض لڑکیاں بھی پیسے اور شہرت کے چکر میں ان لوگوں کے دام میں خود ہی پھنستی ہیں ۔آئے روز یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ 60سالہ بابا جی نے 16سالہ لڑکی سے شادی کر لی ہے یا 40سالہ خاتون نے 16سال کے لڑکے کو گھر سے بھگا کر شادی کر لی ہے ۔ہماری یہ روش نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی آنکھیں کھولنے کا سبب بن رہی ہے ۔یہ سب منصوبے کے تحت ایک خاص طبقہ بشمول این جی اوز اس کلچر کو پروان چڑھا رہا ہے ۔گویا ہم آئندہ نسلوں کی تباہی کا سامان خود ہی کرنے میں لگے ہیں ۔اچھا معاشرہ تشکیل دینا بحیثیت قوم ہم سب کی ذمہ داری ہے جبکہ ہم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں ہو رہا ۔سوشل میڈیا نے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی آنکھیں اس قدر کھول دی ہے کہ اب وہ مادر پدر آزادی سے بھی بہت آگے کی آزادی کے طلب گار ہوتے جا رہے ہیں۔اگر ہم نے اس کلچر کے آگے بندباندھنے کی تدبیر نہ کی تو اس کے بھیانک نتائج ہمیں تباہ و بربادکر کے رکھ دیں گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔