مہنگائی : ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے


 تاریخ …ڈاکٹر ذیشان نجم خان 
Shaani75@hotmail.com
ہماری ’’عوام دوست ‘‘حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے کی مزید ایک شرط پوری کر دی جس کے تحت بجلی 3 روپے 24 پیسے مہنگی کر دی گئی ہے۔ اس چھوٹی سی سرگرمی سے صارفین پر 335 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا ، ساتھ ساتھ گاڑیوں، امپوڑٹڈ الیکٹرانکس اشیاء ،پالتو جانوروں کی خوراک  ،موبائل سے متعلق اشیائ‘ شیمپو‘ صابن سمیت چند مزید اشیاء پر 17 فیصد سیلز ٹیکس کی بجائے 25 فیصد کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اس مشق سے چار ماہ کے دوران حکومت کو 15ارب روپے کی آمدن متوقع ہے۔ عوام دوست  حکومت کی رعایا سے یہ محبت شعبان کے پہلے عشرے میں ہورہی ہے۔  دو ہفتہ بعد ماہ صیام کا آغاز ہوجائے گا اور پھر اس مبارک مہینے میں مہنگائی کا خنجرجس تیزی سے شہریوں پر چلایا جائے گا اس کا تصور بھی محال ہے۔…ماہ مقدس میں آٹا‘ گھی ‘ چینی‘ بیسن‘ سبزیوں اور پھل کی قیمتوں میں جس تیزی سے اضافہ  ہوگا اسے انتظامیہ روک پائے گی نہ اس بارے میں حکومت ٹھوس قدم اٹھائے گی البتہ یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے 5 ارب کی سبسڈی کے دل کش نعروں کو بہت زیادہ وسعت دی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ آیا 22 کروڑ لوگوں کی یوٹیلٹی سٹورز تک رسائی ہے؟رمضان شریف کی آمد  ہے ذخیرہ اندوزوں کی بد صورتی سامنے آنیوالی ہے ۔ایک طرف مہنگائی کا طوفان ہے ایسا طوفان جس نے 48سال کا ریکارڈ توڑ دیا غریب اس کی لپیٹ میں اور اشرافیہ اپنیر نگ ترنگ میں اس کو کوئی فکر نہیں کہ عوام چیخ رہے ہیں چلارہے ہیں ان کا نوحہ کسی کو سنائی نہیں دیتا  ان کی صدابہ صحرا ہو رہی ہے اور یہ بے چارے غریب  بے بس اور لاچار مایوسی کے اندھے کنوئیں کے کنارے کھڑے اپنی قسمت کو برا بھلا کہ رہے ہیں ۔گرانی نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا ہے سستا آٹا بھی ان کی دسترس سے دور بے چارے آٹے کے حصول کیلئے  جان جوکھوں میں ڈال رہے ہیں  اور ان کے منہ سے آٹے دال کی صدائیں سنی ان سنی ہو رہی ہیں اور یہ حسرت آلود نیند سوئے پر مجبور ہیں صبح نیند سے بیدار ی اور اطاعت خداوندی کے بعد پیٹ کا دوزخ بھرنے محنت مزدوری کے لئے دوڑ دھوپ میں لگ جاتے ہیں سرشام تھکے ہارے جب گھر لوٹتے ہیں تو مہنگائی کے ہاتھوں ٹھنڈے چولہے ان کا استقبال کرتے ہیں تو ان کے دل سے جو آہ نکلتی ہے
 کاش اشرافیہ کے کانوں پڑتی تو ان کو احساس ہوتا کہ غریب کس حال میں ہے ۔ان کو ایک دوسرے کو چور ڈاکو ڈاکو کہنے سے فرصت  نہیں ۔ شہری رو رہے ہیں ، نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے در درکی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے اور یہ ڈگریاں اس کے کام نہیں آرہی ہیں اور اس کی صلاحیت  متاثر ہونے لگی ہے بے روزگار ی اس کے لئے عذاب بنتی جا رہی ہے اور یہ سرکاری نوکری سے کوسوں دور  اس آس پہ کی رہا ہے کبھی تو اس کی قسمت چمکے گی کچھ نوجوان پرائیویٹ نوکریوں میں آجر کی من مانیوں اور بے جا رعب  سہ کر قناعت کرنے پر مجبور ہیں ۔اللہ ان کی مرادیں پوری کرے  اور ملازمت کے دروازے کھلیں اور یہ ٹھنڈی آہ بھریں   عجب حال ہے مہنگائی بے روز گاری  اور دہشت گردی کی لہر نے قوم کو پریشان کر رکھا ہے میرا پھول جیسا وطن  دشمن کی آنکھوں کو نہیں بھا رہا اور مکار دشمن اس کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتا ہے  ایک طرف سرحدی خلاف ورزی کر رہا ہے تو دوسری طرف  دہشتگردی کے ذریعے پاکستان کو انتشار اور بدامنی سے دو چار کر نے کے در پر ہے  آبی دہشت گردی بھی اس کا وطیرہ بن چکا ہے لیکن ہمارے سیاستدان آپس میں  دست وگریباں ہیں جو لمحہ فکریہ ہے سیاسی انتشار اور عدم استحکام نے کئی مسائل پیدا کر دیئے ہیں جو جمہوریت کے لئے نیک شگون نہیں مہنگائی بھوک وافلاس میں جکڑی عاجز و لا چار عوام پر رحم کھاؤ مہنگائی بیروزگاری پر قابو پائو  سیاسی بصیرت تد بر اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب  فروعی سیاسی اختلاف  بھلا کر ملکی سلامتی ترقی اور خوشحالی کے لئے ایک ہو جائیں عوام کا نوحہ سنیں کان دھرے اورملک کو بدترین سیاسی اور اقتصادی بحران سے نکالیں یہی وقت کی ضرورت ہے

ای پیپر دی نیشن