یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دہلی کے حکمرانوں کے علاوہ بعض دیگر علاقائی طاقتیں بھی عرصہ دراز سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی اپنی دیرینہ سازشیں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس تناظر میں حالیہ ہفتوں میں بلوچستان اور سی پیک کےخلاف من گھڑت الزامات کے وہ تُو مار باندھے گئے جس سے وطن عزیز کے سبھی حلقے بخوبی آگاہ ہیں مگر اسے ربِ کریم کی خصوصی کرم نوازی ہی قرار دیا جانا چاہیے کہ بلوچستان اور سی پیک کی بابت مخالفین کے سبھی حربے دھیرے دھیرے اپنی موت آپ مرتے جا رہے ہیں ۔ سبھی جانتے ہیں کہ اصل حقائق اس بھارتی، امریکی اور اسرائیلی پراپیگنڈے سے مختلف ہی نہیں بلکہ قطعاً متضاد ہیں اور اصل حقیقت تو یہ ہے کہ را، موساد اور سی آئی اے پاکستان کے اندر تخریب کاری کو ہر ممکن ڈھنگ سے فروغ دینے کیلئے کوشاں ہےں اور اس ضمن میں ہر وہ حربہ آزمایا جا رہا ہے جس کا تصور بھی کسی مہذب معاشرے میں نہیں ہونا چاہیے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے سنجیدہ مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ اسے عالمی امن کی بد قسمتی ہی قرار دیا جانا چاہیے کہ بھارت، اسرائیل اور کچھ امریکی حلقے تسلسل کے ساتھ وطن عزیز کیخلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ کرتے چلے آ رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہے کہ رکنے کی بجائے ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز سے دراز تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔غیر جانبدار حلقوں نے اسی تناظر میں کہا ہے کہ ”طارق فتح“ اور ” حسین حقانی “ سمیت چند مکروہ ذہنیت کے حامل طبقات کی جانب سے لگاتار پاکستان کے خلاف اس قدر زہریلا پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ الامان الحفیظ ۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کےخلاف جاری بھارتی سازشیں اگرچہ کوئی نئی بات نہیں مگر پچھلے کچھ عرصے سے ان پاک مخالف حلقوں کی فہرست میں ”را“ کے ساتھ ساتھ موساد، سی آئی اے اور خطے کی دیگر قوتیں بھی پیش پیش نظر آتی ہیں ۔ خصوصاً ” سی پیک“ کے عظیم منصوبے کو نقصان پہنچانے کی جارحانہ بھارتی روش مزید کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ اس پس منظر میں مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آزادی کے بعد سے ہی دہلی سرکار نے وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کا مکروہ سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ اسی تناظر میں بلوچستان کے حوالے سے پراپیگنڈے کی نئی لہر گذشتہ چند مہینوں سے جاری ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی اسی سلسلے کو پھیلایا جا رہا ہے۔حالانکہ اس امر سے کون آگاہ نہیں تمام عالمی این جی اوز، اداروں اور ذرائع ابلاغ کو بلوچستان میں زمینی حقائق کی مانیٹرنگ اور رپورٹنگ کی کھلی چھوٹ ہے ، لیکن اس سب کے باوجود جب یہ حلقے من چاہے نتائج حاصل نہیں کر پاتے تو بے بنیاد پراپیگنڈے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں کبھی جبری گمشدگیوں کی بات کی جاتی ہے تو کبھی لاپتہ افراد کی حالانکہ سبھی جانتے ہیں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ ایک عالمی مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس بات کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کہ اس حوالے سے ایسے اعداد و شمار رپورٹ کئے جاتے ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں، نہ ہی ان اعداد و شمار کی بنیاد میں کوئی ٹھوس تحقیق موجود ہوتی ہے۔ جب چند عالمی اداروں کے ذریعے ان اعداد و شمار کا راگ الاپا جاتا ہے تو وطن عزیز کے چند بھولے بھالے حلقے بھی اس پر یقین کر کے بیٹھ جاتے ہیں اور خود مذمتی کا سلسلہ نئی شدت کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے۔ البتہ یہ امر انتہائی حوصلہ افزا ہے کہ بلوچستان کے عوام میں آگہی اور شعور کا احساس بیدار ہو رہا ہے اور وہ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر جذبہ حب الوطنی سے سرشار دشمن کی ان سازشوں کو مسلسل ناکام بنا رہے ہیں اور بلوچستان میں ہر سو ترقی اور خوشحالی کے راستے کھل رہے ہیں۔
توقع کی جانی چاہیے کہ ”سی پیک“ کےخلاف جاری یہ بھارتی سازشیں کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ اس حوالے سے مبصرین نے توقع ظاہر کی ہے کہ عالمی برادری اپنی انسانی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے تعمیری راہ اپنائے گی۔
یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان کی جری افواج نے بیتے چند برسوں میں دہشتگردی کے خاتمے کے حوالے جو شبانہ روز قربانیاں دیں، ان کا معترف ہر ذی شعور ہے۔ اس بدیہی حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ 7000 سے زائد افسر و جوان اپنی جانیں وطن کی حفاظت کےلئے نثار کر چکے ہیں اور ان کے ساتھ لگ بھگ 65000 سویلین پاکستانی شہری لقمہ اجل بنے۔ ایسے میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ پوری عالمی برادری اس امر کا اعتراف کرتی اور وطن عزیز کی قربانیوں کو خاطر خواہ ڈھنگ سے سراہا جاتا مگر عملاً اس کے الٹ ہو رہا ہے اور الٹا پاکستان کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ گویا گھر والوں کو غفلت پہ سبھی کوس رہے ہیں چوروں کو مگر کوئی ملامت نہیں کرتا۔یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ چند عالمی قوتوں نے پاکستان کے حوالے سے اب بھی ” ڈو مور“ کی گردان کو اپنا دُم چھلا بنا رکھا ہے اور اٹھتے بیٹھتے اسی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ”کلبھوشن یادو “ جیسے عالمی دہشتگرد کی گرفتاری کے بعد بھی اگر یہ طبقات اپنی پارسائی کے دعوے سے باز نہ آئیں تو اسے جنوبی ایشیاءکی بد قسمتی کے علاوہ بھلا دوسرا نام کیا دیا جا سکتا ہے اور پھر جس طرح افغانستان میں ہونے والی دہشتگردی کو جس انداز میں پاکستان کے سر مُنڈھنے کی ناپاک جسارت کی جا رہی ہے اس کی تو مذمت کرنے کے لئے بھی الفاظ ڈھونڈ پانا خاصا دل گردے کا کام ہے ۔ مگر آفرین ہے بھارتی حکمرانوں اور بین الاقوامی طاقتوں پر کہ اپنی شرانگیزیوں پر بجائے نادم ہونے کے وہ اپنی چالبازیوں سے باز آنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ دوسری جانب نہتے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے مگر عالمی برادری کا ضمیر ہے کہ جاگنے کےلئے تیار نہیں۔ ایسے میں امید کی جانی چاہیے کہ اس ضمن میں عالمی برادری اپنی وقتی مصلحتوں کو خیرباد کہہ کر اپنا انسانی فریضہ نبھائے گی ۔