کیا اقتصادی بحران سے چھٹکارا ممکن؟


پاکستان اس وقت شدید معاشی، سماجی، اور سیاسی بحران کا شکار ہے سیاسی کشیدگی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ الامان الحفیظ! مگر صد افسوس کہ ہمارے بزرجمہر وں کے پاس ایسی فہم و فراست کا فقدان ہے۔جس سے ان حالات کو بدلہ جانا ممکن ہو۔ پروفیسر آرتھر لیوس کا کہنا ہے کہ کسی ملک کی اجتماعی معاشی خوشحالی کا انحصار اس کے سیاسی استحکام پر ہے۔جب کسی ملک میں حکومت سیاسی طور پر مستحکم ہو تی ہے اور اسکی معاشی اور کاروباری پالیسیوں میں تسلسل رہتا ہے تو اس ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ ملنے سے قومی آمدنی اور روزگار کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے اور ملک میں اجتماعی خوشحالی کا دور دورہ شروع ہو جاتا ہے مگر بدقسمتی سے سیاسی محاذ آرائی اور غیر یقینی حالات کی وجہ سے پچھلے 20 سالوں سے پاکستان کی معیشت ڈرپ پر چل رہی ہے۔ اس ڈرپ اکا نومی میں سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کے درمیان سیاسی کشیدگی عروج پر ہے اور اس وجہ سے ایک طرف مہنگائی کا عفریت عوام کو کچل رہا ہے تو دوسری طرف سرمایہ کاروں کو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ وہ نئے پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کریں یا نہ کریں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہو نے کے برابر ہے۔ جب سے آئی ایم ایف کی ڈیل تعطل کا شکار شکار ہو ئی ہے، اکتوبر سے لے کر اب تک پاکستان کو دس سے بارہ ارب ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔ بیرونی ترسیلات جو اکتوبر تک 3 ارب ڈالرز کی تھیں، اب ماہوار دو سے سوا دو ارب ڈالرز تک گر گئی ہے۔
ایک طرف سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے نیشنل سکیورٹی خطرے میں دکھائی دے رہی ہے تو دوسری طرف گزشتہ سال پاکستان میں سیلاب نے ہماری زرعی معیشت کو 16 ارب ڈالرز کا نقصان پہنچایا ہے۔ پاکستان کا وسیع علاقہ زیر آب آ گیا تھا زرعی رقبے کی تباہی سے پاکستان میں خوراک کی پیداوار کو بری طرح نقصان پہنچا ہے اور زرعی اشیاءکی رسد میں کمی سے گندم، اور پیاز جیسی بنیادی اشیاءکی قیمتوں میں ہو شر با اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی معاشی تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ صرف چار سال چھوڑ کر پاکستان کا تجارتی توازن منفی رہا ہے یعنی درآمدات کی مقدار اور ان کی قدر برآمدات کی مقدار اور قدر سے زائد رہی ہے۔ 
اب صورتحال یہ ہے کہ کہ بہت ساری اشیاءکی درآمد ہماری لائف لائن ہے جیسے پٹرولیم مصنوعات، ادویات، خوردنی تیل اور صنعتوں کے لیے خام مال اور ایل این جی وغیرہ لہٰذا سامان تعیش کی درآمدات کو ڈیوٹی بڑھا کر کنٹرول کرنا ممکن ہے۔ مگر ضروری اشیاءکی درآمدات کو روکنے سے اس ملک میں قحط کی صورتحال پیدا ہو جائے گی ۔کیسے ہم پٹرو ل گیس اور ادویات کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں۔ تجارتی اور مالیاتی خسارے، بیلنس آف پیمنٹ کے مسائل، امراءاور طاقتور سرکاری طبقے کی 17 ارب ڈالرز کی مراعات اور ٹیکسوں کی معافی نے ملک کو ڈیفالٹ کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔
اس وقت پاکستان مجبور ہے کہ کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے لیے کوئی space fiscal حاصل کر لے مگر دیرپا حل کے لیے ضروری ہو گا کہ معیشت کو ری سٹرکچر کیا جائے۔ پراگریسف ٹیکس کی بنیاد پر جس کی جتنی آمدنی زیادہ ہو وہ اتنا ہی زیادہ ٹیکس دے نہ کہ تمام لوگ امیر ہوں یا غریب ایک ہی شرع سے ٹیکس ادا کریں، جیسا کہ پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں میں غریب تعداد میں زیادہ ہیں اس لیے وہ ایسے ٹیکس زیادہ ادا کر تے ہیں۔ دوسری طرف متوازی معیشت ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور زیادہ تر امراءبراہ راست ٹیکس اپنی آمدنیوں کے مطابق ادا نہیں کرتے ہیں/ ڈالرز کی سمگلنگ کے علاوہ افغانستان اور ایران کے بارڈر کے ذریعے سمگلنگ عام ہے، آگر آج بھی ہماری تقدیر کے سیاہ اور سپید کے مالک اجتماعی بصیرت سے کوئی ایسا متفقہ دیر پا روڈ میپ بنا نے میں کامیاب ہو جائیں تو ہو سکتا ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اس گرداب سے نکل جا ئیںاور ملکی آمدنیوں اور آخراجات میں توازن لے آئیں اور وسیع قرضوں کی ڈیٹ سروسنگ، توانائی اور گیس کے شعبوں کے سرکلر ڈیٹ اور خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں، اور غیر ضروری آخراجات اور اٹھارویں ترمیم میں لوپ ہولز کا کوئی حل تلاش کر کے اس ملک کی درست معاشی سمت کا تعین کر نے کے قابل ہو جائیں مگر ابھی تک آئی ایم ایف سے امداد ملنے کی امید بر دکھائی نہیں دے رہی ہے۔گزشتہ 75 سال سے ہمارا وتیرہ ہے کہ ہم بار بار آ ئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔ دو تین سال اس کی اصلاحاتی پروگرام پر عمل کرتے ہیں اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے آ ئی ایم ایف کی اصلاحات کو معطل کر دیتے ہیں۔ 2019 کا آئی ایم ایف کا معاہدہ ہم اب تک تین دفعہ توڑ چکے ہیں لہٰذا اب آئی ایم ایف ہمیں ٹف شرائط اور tactics delaying سے دباو¿ میں رکھے ہوئے ہے۔ یہ ہمیں چین سے سی پیک معاہدوں پر سزا دی جا رہی ہے اور کچھ ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور بروقت حالات کا ادراک نہ کرنے کی صلاحیت کی سزا ساری قوم بھگت رہی ہے۔ کارخانے اور فیکٹریاں توانائی کے بحران کی وجہ سے بند نہیں ہو رہی ہیں بلکہ ڈالرز کی قلت کی وجہ سے ضروری سامان کی عدم فراہمی سے بند ہو رہی ہیں اور بیروزگاری دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاسی محاذ آرائی، اور معاشی بحران کے ساتھ بیڈ گورنس نے اس ملک کی بقا اور سالمیت کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے اور قاہد اعظم نے اس ملک کو جو اسلامی ویلفیئر سٹیٹ بنانے کا خواب دیکھا تھا‘ وہ آج دور دور تک شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن